سلونی شام جیسے خوں کی پیاسی ہوتی جاتی ہے

عرفان صدیقی


سمٹتی دھوپ تحریرِ حنا سی ہوتی جاتی ہے
سلونی شام جیسے خوں کی پیاسی ہوتی جاتی ہے
تھکے ہونٹوں سے بوسوں کے پرندے اڑتے جاتے ہیں
ہوس جاڑے کی شاموں کی اداسی ہوتی جاتی ہے
سکوتِ شب میں تم آواز کا شیشہ گرا دینا
فضا سنسان کمرے کی ننداسی ہوتی جاتی ہے
کوئی رکھ دے کسی الزام کا تازہ گلاب اس میں
بچھڑتی چاہتوں کی گود باسی ہوتی جاتی ہے
تو پھر اک بار یہ چاکِ گریباں سب کو دکھلا دیں
بہت بدنام اپنی خوش لباسی ہوتی جاتی ہے
غزل کی صحبتوں سے اور کچھ حاصل نہیں، لیکن
غزالوں سے ذرا صورت شناسی ہوتی جاتی ہے
مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن
ہزج مثمن سالم
فہرست