کہ آج دیر سے نکلا مرا ستارۂ شام

عرفان صدیقی


عجب نہیں وہ سمجھ لے یہ استعارۂ شام
کہ آج دیر سے نکلا مرا ستارۂ شام
یہ کون میرے بدن میں طلوع ہونے لگا
ابھی لہو کو ملا بھی نہیں اشارۂ شام
چھپا نظر سے جو میرا ہلالِ ماہِ وصال
اتر گیا مرے دل میں سیاہ پارۂ شام
سمٹتی دھوپ ترے روپ کی سہیلی تھی
پنھا گئی ترے کانوں میں گوشوارۂ شام
ہر آفتاب کو آخر غروب ہونا ہے
سو ہم بھی ڈوب رہے ہیں سرِ کنارۂ شام
مفاعِلن فَعِلاتن مفاعِلن فِعْلن
مجتث مثمن مخبون محذوف مسکن
فہرست