اب جو لپٹا ہے تو آ پیار کی کروٹ سے لپٹ

انشاء اللہ خان انشا


کھول آغوش نہ تو مجھ سے رکاوٹ سے لپٹ
اب جو لپٹا ہے تو آ پیار کی کروٹ سے لپٹ
اس نے سر اپنا دھنا دیکھ شگاف در سے
کر کے غش رہ گئے ہم اس کی جو چوکھٹ سے لپٹ
دھوم یہ بادہ کشوں کی ہے کہ مے خانہ میں
مست جاتے ہیں صراحی کی غٹا غٹ سے لپٹ
جوں گلی میں مجھے آتے ہوئے دیکھا تو وہ شوخ
اپنی چوکھٹ سے اچک جھٹ سے گیا پٹ سے لپٹ
شیخ سے عید کو کیوں آپ ہم آغوش ہوئے
گویا جاتا ہے بھلا ایسے بھی کھوسٹ سے لپٹ
جس کو کہتے ہیں تراقی کی پھبن سو ظالم
رہ گئی ہے تری چولی کی پھنساوٹ سے لپٹ
پیس ڈال آج تو میرے بھی پھپھولے دل کے
آ نہ آ مجھ سے ٹک ایسی ہی سجاوٹ سے لپٹ
دھم سے ہم دونو گرے فرش پہ ہیں روپ کہ رات
رہ گیا ان کا دوپٹہ بھی چھپر کھٹ سے لپٹ
چوٹ کھا کر لگی کہنے کہ اگر ایسا ہے
ہے گلا کھیلنا تجھ کو تو کسی نٹ سے لپٹ
رعد کے ساتھ ہے انشاؔ مرے نالہ کا وہ روپ
جیسے گٹھ جاتی ہیں سم دون میں تروٹ سے لپٹ
فہرست