۱۹۴۲ کا ایک جنگی پوسٹر

مجید امجد


اک محافظ ستارے نے کل شام
کرۂ ارض کو خبر دی ہے
ملکِ مریخ کے لٹیروں نے
وادی مہ تباہ کر دی ہے
جادۂ کہکشاں کے دونوں طرف
گھاٹی گھاٹی لہو سے بھر دی ہے
آندھیوں نے انہیں خرام دیا
بجلیوں نے انہیں نظر دی ہے
ڈوبتا سورج ان کا مغفر ہے
شفقِ سرخ ان کی وردی ہے
آج انہوں نے نظامِ عالم کو
دعوتِ آتش و شرر دی ہے
آن پہنچی ہے امتحاں کی گھڑی
خاکیو! وقت پائے مردی ہے
یہ تمھی نے ہی ماہ و پرویں کو
اپنی تابانیِ نظر دی ہے
یہ تمھی نے ہی بزمِ انجم کو
تابشِ سلکِ صد گہر دی ہے
یہ تمھی نے متاعِ نور اپنی
مشتری کو بھی مشت بھر دی ہے
بارہا وقت کے اندھیرے کو
تم نے رنگینیِ سحر دی ہے
جن مقامات کی خبر ہی نہیں
ان مقامات کی خبر دی ہے
تم وہ منزل ہو جس کے جلووں نے
منزلوں کو رہِ سفر دی ہے
سینکڑوں ناشگفتہ پھولوں کی بو
تم نے اس گلستاں میں بھر دی ہے
سینکڑوں ہستیوں کو صبحِ نمود
اپنی ہستی میں ڈوب کر دی ہے
سرمۂ چشمِ صد جہاں کے لیے
اپنے ایواں کی خاکِ در دی ہے
کون بتلائے تم نے اپنی شراب
میکدے میں کدھر کدھر دی ہے
آج تقدیرِ زندگی نے صدا
پھر تمہیں نوبتِ دگر دی ہے
چشم بر راہ روحِ عالم ہے
منتظر چرخِ لاجوردی ہے
کہو کس چیز کی کمی ہے تمہیں
دل دیا ہے تمہیں، نظر دی ہے
زندگانی کے قافلوں کے لیے
تم کو آواز راہبر دی ہے
آب اور گل کے اک کھلونے کو
شانِ دارائیِ بشر دی ہے
پھاند جاؤ حدیں زمانوں کی
تھام لو باگ آسمانوں کی
 
فہرست