کانٹے کلیاں

مجید امجد


تم سے تو یہ ڈسنے والے کانٹے اچھے ، ہنستے پھولو!
چنچل کانٹے ، لانبی دوب کی ٹھنڈی چھاؤں کے متوالے
اپنی جلتی جلتی زباں سے چاٹ چاٹ کے دکھتے چھالے
ہر راہی کا دامن تھام کے کہتے ہیں
’’او جانے والے !
چلتے چلتے ، جب تم اک دن پھاند کے یہ گم سم ویرانہ
دور، کسی وادی کے کنارے ، کھول کے اپنے دل کا خزانہ
ڈرتے ڈرتے چھیڑو کوئی دھیما دھیما مست ترانہ
ہم نے ہی یہ بس میں گھول کے رس بخشا تھا، بھول نہ جانا‘‘
تم سے تو یہ ڈسنے والے کانٹے اچھے ، ہنستے پھولو!
ظالم پھولو! کتنے پیاسے خوابوں کے بیتاب ہیولے
کتنی زندگیوں کے بگولے ، تمہاری خوشبوؤں کے جھولے
میں دو گھومتے لمحوں کے لب چوم کے اپنا رستہ بھولے
تم سے تو یہ کانٹے اچھے —
 
فہرست