حرفِ اول
کتنی چھناچھن ناچتی صدیاں
کتنے گھناگھن گھومتے عالم
کتنے مراحل—
جن کا مآل — اک سانس کی مہلت
سانس کی مہلت — عمرِ گریزاں —
جس کی لرزتی روشنیوں میں
جھلمل جھلمل
جھلکے اک مسحور مسافت!
حدِ نظر تک وسعتِ دوراں
جس کی خونیں سطح پہ تڑپے
طوق و سلاسل
میں جکڑی انسان کی قسمت
یہ اشکوں، آہوں کی دنیا
اس منڈلی میں پہیم دھڑکے
ساز غمِ دل
پیہم باجے ، درد کی نوبت
یہ جلتے لمحوں کا الاؤ
اس جیون میں، غم، دمِ خنجر
دکھ سمِ قاتل
میں نے پیا ہر زہر سے امرت!
کیسے کیسے عجب زمانے
پگ پگ شعلے ، تٹ تٹ طوفاں
اور مرا دل:
بجھتے جگوں کی راکھ میں لت پت!
بسری یادوں کی بستی کے
بند کواڑوں سے ٹکراتا
میں اک سائل
میرا رزق، سسکتی چاہت!
شہرِ جنوں کے رنگ نیارے
گلیاں، موڑ، منڈیریں، دوارے
منزل منزل
ارمانوں کی بچھڑتی سنگت!
دور کہیں، اس پار، وہ دنیا
آرزوؤں کا دیس کہ جس کی
راہ میں حائل
آنکھ کی جھیلیں، دھوئیں کے پربت!
دردوں کے اس کوہِ گراں سے
میں نے تراشی، نظم کے ایواں
کی اک اک سل
اک اک سوچ کی حیراں مورت!
تجربہ ہائے زیست کے آرے
تلخیِ صد احساس کے تیشے
ان کے مقابل
حرفِ زبوں — اک کانچ کی لعبت!
عمر اسی الجھن میں گزری
کیا شے ہے یہ حرف و بیاں کا
عقدۂ مشکل؟
صورت معنٰی؟ معنٰی صورت؟
اکثر گردِ سخن سے نہ ابھرے
وادیِ فکر کی لیلاؤں کے
جھومتے محمل!
طے نہ ہوا ویرانۂ حیرت!
گرچہ قلم کی نوک سے ٹپکے
کتنے ترانے ، کتنے فسانے
لاکھ مسائل
دل میں رہی سب دل کی حکایت!
بیس برس کی کاوشِ پہیم
سوچتے دن اور جاگتی راتیں
ان کا حاصل:
ایک یہی اظہار کی حسرت!