نووارد

مجید امجد


نازنیں! اجنبیِ شہرِ محبت ہوں میں
میں ترے دیس کے اطوار سے ناواقف ہوں
دیدۂ شوق کی بیباک نگاہوں پہ نہ جا
کیا کروں جرات گفتار سے ناواقف ہوں
چل پڑا ہوں ترے دامن کو پکڑ کر لیکن
اس کٹھن جادۂ پرخارسے ناواقف ہوں
مست ہوں عشرتِ آغاز کی سرمستی میں
میں ابھی عاقبتِ کار سے ناواقف ہوں
سونگھنی ہے تری زلفوں سے ابھی بوئے جنوں
ابھی دامن کے پھٹے تار سے ناواقف ہوں
دیکھ لوں تجھ کو تو بے ساختہ پیار آتا ہے
پیار آتا ہے مگر پیار سے ناواقف ہوں
دل میں یہ جذبۂ بیدار ہے کیا؟ تو ہی بتا
میں تو اس جذبۂ بیدارسے ناواقف ہوں
اک مسافر ہوں ترے دیس میں آ نکلا ہوں
اور ترے دیس کے اطوار سے ناواقف ہوں
 
فہرست