عقدۂ ہستی

مجید امجد


خشک ندی کے کنارے ، ریل کی پٹڑی کے پاس
کھل رہا ہے دشت میں اک لالۂ آتش لباس
اس طرف کمھلائی دوب اور اس طرف سوکھا ببول
پل رہا ہے جن کی بے احساس گودی میں یہ پھول
کھیلتا ہے گرچہ انگاروں سے اس کا ہر نفس
مٹ رہا ہے خار و خس میں ہم نشینِ خار و خس
درد کی فطرت کا دم اس طرح گھٹتا دیکھ کر
دیکھ کر اس سوز کی دولت کو لٹتا دیکھ کر
مجھ کو نظمِ زیست کی بربادیاں یاد آ گئیں
میری آنکھوں میں برستی بدلیاں لہرا گئیں
اس پر اک ساتھی نے حیرت سے کہا: ’’کیوں کیا ہوا؟
او مسافر بھائی، تو کیوں رو پڑا؟ کیوں، کیا ہوا؟‘‘
ایسے لمحے میں حقیقت کو چھپانے کے لیے
دور کیوں جائے بھلا انساں بہانے کے لیے
مسکرا کر میں نے جھٹ اس سے کہا: ’’کچھ بھی نہیں
یونہی بیٹھے بیٹھے آنکھیں میری دھندلا سی گئیں ‘‘
عقدۂ ہستی کو سلجھایا ہے کس نے اور کب؟
آہ اس دنیا میں دل روتے ہیں اور ہنستے ہیں لب!
 
فہرست