ارتھی

مجید امجد


تو نے کیا دیکھا؟ تو نے کیا سمجھا؟
جب تری زندگی نواز آنکھیں
گوشۂ بام کی بلندی سے
فرطِ حیرت سے ، دردمندی سے
جھک پڑیں اس ہجومگریاں پر
جو گزرتا تھا تیرے کوچے سے
ایک ارتھی اٹھائے شانوں پر
چند سہمے سے پھول اور اک چادر
زندگی کی بہار کا انجام؟
بحرِ ہستی کی آخری منجدھار؟
تیرے حسن اور مرے جنوں کا مآل؟
اپنا احساس تھا کہ میرا خیال؟
میں نے دیکھا تو سوگوار سی تھی
تو نے کیا سوچا؟ تو نے کیا سمجھا؟
 
فہرست