مشرق و مغرب

مجید امجد


نہ خوابِ مشرق
نہ سحرِ مغرب
بس اک پھبکتی گداز مٹی
کی چادرِ سبز، جس کے دامن
میں کل تھے انبانِ گندم و جو
اور آج انبارِ سیم و آہن
یہ کون سمجھے
یہ کون جانے
کہ اس تڑپتے ہوئے زمانے
کے سائے میں ڈولتی سی شمعوں
کی روشنی، جو پیالۂ گل
صراحیِ سنگ، کوزۂ مس
کو پھاند کر، شہر و دشت و ساحل
سے اٹھتے گرز و سنان و خنجر
پہ جم گئی تھی — وہ کانپتی لو
جو آج بھی طاقِ زندگی پر
سلگ رہی ہے ، اسی کا پرتو
جہانِ نو کے فروغِ منزل
میں ڈھل گیا ہے
عجیب قصہ ہے ضربِ خارا
سے ذہنِ فولاد جل اٹھا ہے
نہ کوئی مشرق
نہ کوئی مغرب
مگر وہ اک زینۂ مراتب
جو ان گنت، بے زباں غلاموں
کی ٹوٹتی پسلیوں پہ کل بھی
ہزار کف در دہاں خداؤں
کے بوجھ سے کچکچا رہا تھا
اور آج بھی اک وہی ترازو
کہ جس میں زنجیر پوش روحوں
کے شعلہ اندام دست و بازو
بہ مزدِ یک اشک تل رہے ہیں
اگر یہی تھا نصیبِ دوراں
یہ نالۂ غم، یہ اک مسلسل
خروشِ انبوہِ پابجولاں
ازل کی سرحد سے نسلِ آدم
کی یہ کراہیں، جو روز و شب کے
عمیق سناہٹے سے پیہم
ابھر رہی ہیں، یہ چشم و لب کے
فسانہ ہائے سرشک و شیون
اگر مقدر یہی تھا اپنا
تو یہ مقدر یقین جانو اٹل نہیں تھا
یہی ہے مشرق
یہی ہے مغرب
وہ پارہ ہائے سفال و خارا
وہ عقلِ حیراں کی کارگاہیں
وہ جنسِ نایاب، کل ہمارے
جہانِ صد ریزۂ خزف میں
ہماری دولت تھے ، ہم خدا تھے
اور آج بھی یہ شرار پیکر
حقیقتوں کے طلسمِ سوزاں
یہ وسعتِ بحر و بر میں غلطاں
ضمیرِ آہن کی جلتی سانسیں
یہ ذرے ذرے کے قلبِ پیچاں
میں کھولتی قوتوں کے طوفاں
زمانہ ہے جن کی رو میں تنکا
جو آج بھی ہو وجود ان کا
ہماری مٹھی میں، ہم خدا ہیں
سیاہیوں کے چھلکتے خم سے
ابھرتی کرنوں کا حوصلہ ہیں
 
فہرست