نرگس

مجید امجد


میں نے حسرت بھری نظروں سے تجھے دیکھا ہے
جب تو روز، اک نئے بہروپ میں، روز اک نئے انداز کے ساتھ
اپنی ان گاتی ہوئی انکھڑیوں کی چشمکِ طناز کے سات
روز اک تازہ صنم خانۂ آہنگ میں در آئی ہے !
ایکٹریس! روپ کی رانی! تجھے معلوم نہیں
کس طرح تیرے خیالوں کے بھنور میں جی کر
کن تمناؤں کا تلخابۂ نوشیں پی کر
میں نے اک عمر ترے ناچتے سایوں کی پرستش کی ہے
تو نے اک عظمتِ صد رنگ سے جس جذبے کو
آج تک اپنے لیے مزدِ ہزار اشک سمجھ رکھا ہے
وہ محبت مرے سینے میں تڑپتی ہوئی اک دنیا ہے
جو ترے قدموں کی ہر چاپ پہ چونک اٹھتی ہے
کاش میں بھی وہی اک عکسِ درخشاں ہوتا
دلِ انساں سے ابھرتی ہوئی موہوم تمناؤں کا عکس
ایک مانگی ہوئی اچکن میں سمایا ہوا مامورِ فغاں شخص
جس کے پہلو میں تری روح دھڑک سکتی ہے
 
فہرست