کیلنڈر کی تصویر

مجید امجد


اچانک جو ہوٹل کی دیوار کے
اک اونچے دریچے میں لٹکی ہوئی
شبیہِ حسیں پر نظر جا رکی
پیالی مرے ہاتھ سے گر پڑی
کہا دل سے میں نے
کہ اے خوش خرو!
نگاریں ہے جس سے ترے غم کا ظرف
وہ خطِ جبیں
وہ خال مبیں
نہیں — یہ نہیں
زباں پر نہ لا نامِ شیریں کے حرف
کہاں تیرے شعلے ، کہاں شہرِ برف!
میں اس سوچ میں تھا کہ دیوارِ دل
پر اک عکس ابھرا مرے روبرو
وہی وضعِ رو
وہی قطعِ مو
خراباتِ ایام میں چار سو
کھنکنے لگے طاقچوں پر سبو
 
فہرست