صدا بھی مرگِ صدا

مجید امجد


نہ کوئی سقفِ منقش، نہ کوئی چترِ حریر
نہ کوئی چادرِ گل اور نہ کوئی سایۂ تاک
بس ایک تودۂ خاک
بس ایک ٹھیکریوں سے ڈھکی ہوئی ڈھلوان
بس ایک اندھے گڑھے میں ہجومِ کرمکِ کور
بس ایک قبۂ گور
نہ کوئی لوحِ مسطر، نہ کوئی خشتِ نشاں
یہی پہ دفن ہے وہ صاحبِ سخن کہ جسے
نظامِ دنیا نے
ہزار مرتبہ عرضِ نوا کی دعوت دی
مگر وہ اپنی فصیلِ خیال میں محصور
رہِ زمانہ سے دور
خروشِ برقِ سرِ نیستاں سے بے پروا
سکوت سینہ یک چوبِ نے میں ڈوب گیا
صدا بھی مرگِ صدا!
یہیں پہ دفن ہے وہ روح جس کی دھیمی آگ
کبھی جو ڈھل بھی سکی تو ڈھلی بہ قالبِ حرف
پہن کے جامۂ برف
ضمیرِ ارض پہ کھینچی گئی لہو کی لکیر
اور اس کا ایک بھی چھینٹا نہیں سرِ قرطاس
بہ مصحفِ احساس!
ستم کی تیغ چلی، گردنوں کی فصل کٹی
اور اس تمام فسانے کی اک بھی سطرِ حزیں
زبورِ غم میں نہیں!
پکارتی رہیں پیہم کراہتی صدیاں
اور ایک گونج بھی ان کی نہیں صدا انداز
بہ گنبدِ الفاظ
پہاڑ لرزے ، ستاروں کی بستیاں ڈولیں
الٹ سکی نہ مگر رخ سے پردۂ افسوں
روایتِ مضموں!
یہیں پہ دفن ہے وہ جسم، وہ روایتِ خاک
وہ دل کہ جس کے دھڑکتے ہوئے بیانِ الم
کو چھو سکا نہ قلم!
یہیں پہ گلتی ہوئی ہڈیوں کے ڈھیر میں اب
دبے پڑے ہیں وہ لمحے جو رزقِ سم نہ بنے
نوائے غم نہ بنے !
یہیں پہ ریزۂ سل بن کے جم گئے ہیں وہ ہات
جو اشکبار زمانوں کی موجِ رقصاں سے
شرار چن نہ سکے !
کرید کر کوئی اس راکھ کو اگر دیکھے
تو آج ایک رگِ سنگ ہے وہ نبضِ تپاں
وہ جوئے خونِ رواں
وہ زندگی کے تلاطم میں ڈوبتی ہوئی آگ
صریرِ خامہ کی تقدیس بیچتا ہوا فن
تمام گردِ کفن!
یہ کرم خوردہ اساطیر کا بلند الوند
یہ سب درست، مگر پھر بھی اک سوال ہے آج
جواب کا محتاج
کوئی بتائے کہ اس وقت کیا کرے انساں
جب آسمان کی آنکھوں سے روشنی چھینیں
ستم کی سنگینیں
یہی سوال اب اس قبر کے اندھیروں میں
ہزار رینگتے کیڑوں کی سرسراہٹ ہے
اجل کی آہٹ ہے
یہ قبر طنز ہے ان لازوال ارادوں پر
نگل گئے جنہیں ظلمت کے خشمگیں عفریت
مقدر وں پہ محیط!
مقدر وں کے دھوئیں سے ابھرتے رہگیرو
نشان اس کا مٹاتے چلو زدِ پا سے !
جبینِ دنیا سے !
 
فہرست