حربے

مجید امجد


زندگی کے اسلحہ خانے سے اس روحِ زبوں کو کیا ملا
صرف دو ترچھے سے ابرو، صرف دو پتلے سے ہونٹ
کتنے مہلک ہیں یہ حربے ، کیا کہوں ۔۔۔
جب بھی کوئی شبھ گھڑی
اس کے دل پرکھینچ دیتی ہے سنہری زائچے
جب بھی میٹھے مکر کی جھوٹی ہنسی
اس کے چہرے پر بچھا دیتی ہے زریں زاویے
اس کی ترچھی کانپتی جھکتی بھنویں
۔۔۔ دو کٹاریں، جن کے اکھڑے اکھڑے قبضے ، انکھڑیاں
اس کے پتلے مسکراتے ٹیڑھے ہونٹ
… آریاں، جن کی دنتیلی دھار، دانت۔۔۔
ٹوٹ پڑتی ہیں دلوں پر اس طرح
بے سپر سچائیوں پر اس طرح کرتی ہیں وار
جیسے باقی جتنی جوہردار قدریں زندگی کے اسلحہ خانے میں ہیں سب ہیچ ہیں
جانے کتنی ایسی روحیں ان کمیں گاہوں میں ہیں
کون ہو ان کا حریف
کاش خود ان کا ضمیرِ بے نیام
ان کی آہن پوش تقدیروں کو گھائل کر سکے
کاش اس خنداں ہزیمت کا تصور، ایک دن
ہو سکے خود ان کے دل پر حملہ آور، فتح یاب!
 
فہرست