مشاہیر

مجید امجد


کیا لوگ تھے جن کی گردن پر
تلوار چلی ۔۔۔ اک سرد تڑپ
۔۔۔ اک خون میں لتھڑی ہوئی کروٹ
اور وقت کے سیمیں دھارے پر
اک سطر لہو کی چھوڑ گئے !
اچھے تھے وہ جن کو سولی کی
رسی سے لٹک کر نیند آئی
اک تیز کھٹک! اک سرد تڑپ
اور وقت کی دکھتی چیخوں میں
اک شبد کی شکتی چھوڑ گئے
مٹی بھی اب ان ساونتوں کی
ان کھوئے ہوئے کھنڈروں میں نہیں
اک سطر لہو کی کانپتی ہے
اک شبد کی شکتی ڈولتی ہے
تاریخ کی گلتی پستک پر
اک نام کا دھبا باقی ہے
کیا کچھ نہ ملا ان جیالوں کو
شعلوں پہ قدم رکھنے میں سکوں
جینے کے لیے مرنے کی لگن
اے وائے وہ جلتی روحیں جنہیں
ہر درد ملا، منزل نہ ملی!
کل ان کی زرہ پوش آرزوئیں
جس آگ کی رو میں بہتی ہوئی
نیزوں کی انی پر ناچ گئیں
وہ آگ تمہاری دنیا ہے
وہ آگ تمہارے پاؤں تلے
جتنوں کی لہکتی جنت ہے
اس اگنی سے ، اس جیتے جگوں
کی کھلتی ہوئی پھلواڑی سے
وہ چار دہکتے پھول چنو
اتنا ہی سہی، اتنا تو کرو
تاریخ کی گلتی پستک پر
اک نام کا دھبا ہو کہ نہ ہو
 
فہرست