دل پتھر کا۔۔۔

مجید امجد


اس پتھر پر، اک اک پل کی گھایل آنچ بھی گھاؤ
اس پنکھڑی کو بہا نہ سکا طوفانوں کا بھی بہاؤ
دل پتھر کا
پتھر پنکھڑی پھول کی۔۔۔
دل کیا جانے کہاں ہے وہ بے انت سمے کا پڑاؤ
جہاں پہ جل کر راکھ ہوئے ہیں زندگیوں کے الاؤ
دل جو سنے تو جکڑے ہوئے سناٹوں کی یہ کراہ
اک سندیس ہے ، جینے والو! ہم کو یاد نہ آؤ
دل کو یاد کرو وہ سمے ، دل بھول چکا وہ سبھاؤ
رات کی میلی کروٹ، آخری سانسوں کا ٹھہراؤ
کسی امر ارمان کی ہچکی، کسی صدا کے شبد
کہیں سے ڈھونڈو ان شبدوں کو
اے بے مہر ہواؤ!
کبھی کھلے پتھر پر پنکھڑی پھول کی
 
فہرست