پہاڑوں کے بیٹے

مجید امجد


مرے دیس کی ان زمینوں کے بیٹے ، جہاں صرف بے برگ پتھر ہیں، صدیوں سے تنہا
جہاں صرف بے مہر موسم ہیں اور ایک دردوں کا سیلاب ہے عمر پیما!
پہاڑوں کے بیٹے
چنبیلی کی نکھری ہوئی پنکھڑیاں، سنگِ خارا کے ریزے
سجل، دودھیا، نرم جسم ۔۔۔ اور کڑے کھردرے سانولے دل
شعاعوں، ہواؤں کے زخمی
چٹانوں سے گر کر خود اپنے ہی قدموں کی مٹی میں اپنا وطن ڈھونڈتے ہیں
وطن، گرم پانی کے تسلے میں ڈھیر ان منجھے برتنوں کا
جسے زندگی کے پسینوں میں ڈوبی ہوئی محنتیں دربدر ڈھونڈتی ہیں
وطن، وہ مسافر اندھیرا
جو اونچے پہاڑوں سے گرتی ہوئی ندیوں کے کناروں پہ شاداب شہروں میں رک کر
کسی آہنی چھت سے اٹھتا دھواں بن گیا ہے
ندی بھی زرافشاں، دھواں بھی زرافشاں
مگر پانیوں اور پسینوں کے ان مول دھارے میں جس درد کی موج ہے عمر پیما
ضمیروں کے قاتل اگر اس کو پرکھیں
تو سینوں میں کالی چٹانیں پگھل جائیں
 
فہرست