مسلخ

مجید امجد


روز اس مسلخ میں کٹتا ہے ڈھیروں گوشت
دھرتی کے اس تھال میں، ڈھیروں گوشت
اور پھر یہ سب ماس
چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں
بستی بستی گلیوں اور بازاروں میں
لمبی لمبی قطاروں میں
جدا جدا تقدیروں میں
بٹتا جاتا ہے ۔۔۔
ہر ٹکڑے کی اپنی آنکھیں، اپنا جسم اور اپنی روح
کہنے کو تو ہر ٹکڑے کا اپنا اپنا نام بھی ہے اور اپنا اپنا دیس بھی ہے
اپنی اپنی امنگیں بھی
… لیکن کچھ بھی ہو
آخر یہ سب کچھ کیا ہے
ڈھیروں گوشت
کھالیں، بھیجے ، انتڑیاں
یہ سب خودآگاہ، جیالے لوگ
میں نے آج جنہیں اس برسوں پہلے کی تصویر میں دیکھا ہے
یہ سب جسم
جیتے ریشوں کے کس بل میں سنبھلتے ہوئے یہ دھڑ
آج کہاں ہیں یہ سب لوگ؟
اب تو ان کی بو تک بھی
شہرِ ابد کے تہہ خانوں سے نہیں آتی
باقی کیا ہے ۔۔۔ صرف
سورج کی اک چنگاری۔۔۔
اور اس چنگاری کے دل میں دھڑکنے والی کلی
جس کی ہر پتی کا ماس
فرد!۔۔۔
عصر۔۔۔!
حیات۔۔۔!
 
فہرست