ہر سال ان صبحوں۔۔۔

مجید امجد


ہر سال ان صبحوں کے سفر میں ۔۔۔ اک دن ایسا بھی آتا ہے
جب پل بھر کو ذرا سرک جاتے ہیں میری کھڑکی کے آگے سے گھومتے گھومتے
سات کروڑ کرے ، اور سورج کے پیلے پھولوں والی پھلواڑی سے اک پتی اڑ کر
میرے میز پر آ گرتی ہے !
ان جنباں جہتوں میں ساکن!
تب اتنے میں سات کروڑ کرے ، پھر پاتالوں سے ابھر کر، اور کھڑکی کے سامنے آ کر
دھوپ کی اس چوکور سی ٹکڑی کو گہنا دیتے ہیں
آنے والے برس تک
اس کمرے تک واپس آنے میں مجھ کو اک دن، اس کو ایک برس لگتا ہے
آج بھی اک ایسا ہی دن ہے
ابھی ابھی اک آڑی ترچھی روشن سیڑھی، صدہا زاویوں کی، پل بھر کو جھک آئی تھی
اس کھڑکی تک
ایک لرزتی ہوئی موجودگی اس سیڑھی سے ، ابھی ابھی، اس کمرے میں اتری تھی
برس برس ہونے کے پرتو کی یہ ایک پرت اس میز پہ دم بھر یوں ڈھلتی ہے
جانے باہر اس ہونی کے ہست میں کیا کیا کچھ ہے
آج یہ اپنے پاؤں تو پاتالوں میں گڑے ہوئے ہیں
 
فہرست