جلسہ

مجید امجد


آج سحردم میں نے بھی رک کر وہ جلسہ دیکھا
پکی سڑک کے ساتھ، ذخیرے میں، ٹوٹی سوکھی شاخوں کے
چھدرے چھدرے سائبانوں کے نیچے
شیشم کے گنجان درختوں کے آپس میں جڑے تنے ، سب
اس جلسے میں کھڑے تھے !
ایک گزرتے جھونکے کی جھنکار ذخیرے میں لرزاں تھی
’’آس پاس کی کالی رسموں کے سب کھیت ہرے ہیں
اور یہ پانی تمہاری باری کا تھا
اب کے بادل دریاؤں پر جا کر برسے
ان سے تمہارا بھی توعہدنامہ تھا
اب کیا ہو گا؟۔۔۔
چلتے آروں کے آگے چرتے گرتے جسمو
پاتالوں میں گڑ جاؤ ورنہ‘‘
اس تیکھی حجت میں اتنی سچائی تھی
جثے ان پیڑوں کے سب اک ساتھ ہلے غصے میں ۔۔۔
اور میری آنکھوں میں پھر گئے دکھ اک ایسے خیال کے ، جس کی ثقافت
جانے کب سے اپنا مسکن ڈھونڈ رہی ہے !
 
فہرست