عذاب

مجید امجد


اپنے ثواب میں نیکی اپنے عذاب سے غافل رہ جائے تو
چھن جاتی ہیں جینے کی سب خوشیاں
ٹوٹ کے رہ جاتا ہے بھروسا اپنا اس نیکی پر
گھل جاتی ہے اپنے آپ سے نفرت میں اپنی ہر اچھائی
اپنے قلب کو اب کوئی چاہے جس قالب میں بھی ڈھالے
اب سب پچھتاوے ٹیسیں ہیں
اب دنیا کی آخری حد تک پھیلے ہوئے ان بادلوں کے نیچے یوں
پلکیں جھکا کر اپنے غموں کی پرستش بے مصروف ہے
باہر اب صرف آنکھیں دیکھتی ہیں۔۔۔ اور
باقی سارے بدن تیزابوں کے تالابوں میں تحلیل ہیں
آنکھیں دیکھتی ہیں۔۔۔ اور اس سے زیادہ کیا دیکھیں گی
سارے خداؤں نے منہ پھیر لیے ہیں
 
فہرست