بجھ گئی شمع ضیا پوشِ جوانی میری!
آج تک کی ہے کئی بار ’’مُحبّت‘‘ مَیں نے
اشکوں اور آہوں سے لبریز ہیں رومان مرے
مٹ گئے میری تَمنّاؤں کے پروانے بھی
دلِ بے چارہ کی مجبوری و تنہائی سے!
میرے سینے ہی میں پیچاں رہیں آہیں میری
کر سکیں رُوح کو عریاں نہ نگاہیں میری!
ایک بار اور مُحبّت کر لوں
میرا یا میری تَمنّاؤں کا انجام سہی
ایک سودا ہی سہی، آرزوئے خام سہی
ایک بار اور مُحبّت کر لوں؟
ایک ’’انسان‘‘ سے الفت کر لوں؟
میرے ترکش میں ہے اِک تیر ابھی
مجھ کو ہے جرأتِ تدبیر ابھی
اور تقدیر پہ پھیلانے کو اک دام سہی؟
مجھ کو اک بار وہی ’’کوہ کنی‘‘ کرنے دو
اور وہی ’’کاہ بر آوردن‘‘ بھی۔۔۔؟
یا تو جی اٹھوں گا اس جرأتِ پرواز سے میں
اور کر دے گی وفا زندۂ جاوِید مجھے
خود بتا دے گی رہِ جادۂ امّید مجھے
یا اُتر جاؤں گا میں یاس کے ویرانوں میں
اور تباہی کے نہاں خانوں میں
آخری حدِّ تَنَزّل ہی کی ایک دید مجھے
جس جگہ تیرگیاں خواب میں ہیں
اور جہاں سوتے ہیں اہریمن بھی
تاکہ ہو جاؤں اسی طرح شناسا آخر
نُور کی منزلِ آغاز سے میں
اپنی اس جرأتِ پرواز سے میں