طلسْمِ جاوداں


رہنے دے اب کھو نہیں باتوں میں وقت،
اب رہنے دے،
اپنی آنکھوں کے طلسْمِ جاوداں میں بہنے دے۔
میری آنکھوں میں ہے وہ سحرِ عظیم
جو کئی صدیوں سے پیہم زندہ ہے
انتہائے وقت تک پائندہ ہے!
دیکھتی ہے جب کبھی آنکھیں اٹھا کر تو مجھے
قافلہ بن کر گزرتے ہیں نگہ کے سامنے
مصر و ہند و نجد و ایراں کے اساطیرِ قدیم:
’’کوئی شاہنشاہ تاج و تخت لٹواتا ہوا
دشت و صحرا میں کوئی شہزادہ آوارہ کہیں
سر کوئی جانباز کہساروں سے ٹکراتا ہوا
اپنی محبوبہ کی خاطر جان سے جاتا ہوا
............................... ‘‘
قافلہ بن کر گزر جاتے ہیں سب
قِصّہ ہائے مصر و ہندوستان و ایران و عرب!
رہنے دے اب کھو نہیں باتوں میں وقت،
اب رہنے دے،
آج میں ہوں چند لمحوں کے لیے تیرے قریب،
سارے انسانوں سے بڑھ کر خوش نصیب!
چند لمحوں کے لیے آزاد ہوں
تیرے دل سے اخذ نُور و نغمہ کرنے کے لیے
زندگی کی لذتوں سے سینہ بھرنے کے لیے؛
تیرے پیکر میں جو روحِ زیست ہے شعلہ فِشاں
وہ دھڑکتی ہے مقام و وقت کی راہوں سے دُور
بیگانۂ مرگ و خزاں!
ایک دن جب تیرا پیکر خاک میں مل جائے گا
زندہ، تابندہ رہے گی اس کی گرمی، اُس کا نُور
اپنے عہدِ رفتہ کے جاں سوز نغمے گائے گی
اور انسانوں کا دیوانہ بناتی جائے گی
رہنے دے اب کھو نہیں باتوں میں وقت
اب رہنے دے!
وقت کے اس مختصر لمحے کو دیکھ
تُو اگر چاہے تو یہ بھی جاوداں ہو جائے گا
پھیل کر خود بیکراں ہو جائے گا
مطمئن باتوں سے ہو سکتا ہے کون؟
رُوح کی سنگین تاریکی کو دھو سکتا ہے کون؟
دیکھ اس جذبات کے نشّے کو دیکھ
تیرے سینے میں بھی اک لرْزِش سی پیدا ہو گئی!
زندگی کی لذّتوں سے سینہ بھر لینے بھی دے
مجھ کو اپنی رُوح کی تکمیل کر لینے بھی دے!
فہرست