خود کشی


کر چکا ہوں آج عزمِ آخری۔۔۔
شام سے پہلے ہی کر دیتا تھا میں
چاٹ کر دیوار کو نوکِ زباں سے ناتواں
صبح ہونے تک وہ ہو جاتی تھی دوبارہ بلند؛
رات کو جب گھر کا رخ کرتا تھا میں
تِیرگی کو دیکھتا تھا سَرْنِگوں
منہ بسورے، رہ گزاروں سے لپٹتے، سوگوار
گھر پہنچتا تھا میں انسانوں سے اُکتایا ہوا
میرا عزمِ آخری یہ ہے کہ میں
کود جاؤں ساتویں منزل سے آج!
آج مَیں نے پا لیا ہے زندگی کو بے نقاب ؛
آتا جاتا تھا بڑی مدت سے میں
ایک عشْوہ ساز و ہرزہ کار محبوبہ کے پاس
اُس کے تختِ خواب کے نیچے مگر
آج مَیں نے دیکھ پایا ہے لہو
تازہ و رخشاں لہو،
بوئے مَے میں بوئے خوں الجھی ہوئی!
وہ ابھی تک خواب گہ میں لوٹ کر آئی نہیں
اور میں کر بھی چکا ہوں اپنا عزمِ آخری!
جی میں آئی ہے لگا دوں ایک بے باکانہ جست
اس دریچے میں سے جو
جھانکتا ہے ساتویں منزل سے کوئے بام کو!
شام سے پہلے ہی کر دیتا تھا میں
چاٹ کر دیوار کو نوکِ زباں سے ناتواں
صبح ہونے تک وہ ہو جاتی تھی دوبارہ بلند
آج تو آخر ہم آغوشِ زمیں ہو جائے گی!
فہرست