زور مے تھا کہ مرے ہاتھ کی لرزش تھی
کہ اس رات کوئی جام گرا ٹوٹ گیا
کہ ترے گھر کے دریچوں کے کئی شیشوں پر
اس سے پہلے کی بھی درزیں تھیں بہت
میں کوزوں کی طرف اپنے تغاروں کی طرف
سوچتا ہوں تو مرے سامنے آئینہ رہی
سرِ بازار دریچے میں سر بستر سنجاب کبھی
جس میں کچھ بھی نظر آیا نہ مجھے
اپنی تنہائی جانکاہ کی دہشت کے سوا!
اور وہ آئینہ مرے ہاتھ میں ہے
اس میں کچھ بھی نظر آتا نہیں
اور مجھے لکھنا بھی کہاں آتا ہے ؟
لوح آئینہ پہ اشکوں کی پھواروں ہی سے
وقت کیا چیز ہے تو جانتی ہے ؟
مرے جام و سبو میرے تغاروں پہ
لوٹ کے آئے گا حسن کوزہ گر سوختہ جاں بھی شاید!
شاید اس جھونپڑے کی چھت پہ یہ مکڑی مری محرومی کی
جسے تنتی چلی جاتی ہے وہ جالا تو نہیں ہوں میں بھی؟
یہ سیہ جھونپڑا میں جس میں پڑا سوچتا ہوں
میرے افلاس کے روندے ہوئے اجداد کی
ان کے فن ان کی معیشت کی کہانی ہے یہی
میں جو لوٹا ہوں تو وہ سوختہ بخت
میرے اس جھونپڑے میں کچھ بھی نہیں
شب و روز کے اس بڑھتے ہوئے کھوکھلے پن میں جو کبھی کھیلتے ہیں
کبھی رو لیتے ہیں مل کر کبھی گا لیتے ہیں
اور مل کر کبھی ہنس لیتے ہیں
دل کے جینے کے بہانے کے سوا اور نہیں
حرف سرحد ہیں جہاں زاد معانی سرحد
دل کے جینے کے بہانے کے سوا اور نہیں
تنہائی کی سرحد بھی کہیں ہے کہ نہیں؟
جو مرے گرد سدا رینگتی ہیں
اسی اک رات کی خوشبو کی طرح رینگتی ہیں
در و دیوار سے لپٹی ہوئی اس گرد کی خوشبو بھی ہے
یادوں کی تمناؤں کی خوشبوئیں بھی
پھر بھی اس جھونپڑے میں کچھ بھی نہیں
یہ مرا جھونپڑا تاریک ہے گندہ ہے پراگندہ ہے
ہاں کبھی دور درختوں سے پرندوں کی صدا آتی ہے
کبھی انجیروں کے زیتونوں کے باغوں کی مہک آتی ہے
تو میں کہتا ہوں کہ لو آج نہا کر نکلا!
ورنہ اس گھر میں کوئی سیج نہیں عطر نہیں ہے
مجھے اس عشق کا یارا بھی نہیں!
تو ہنسے گی اے جہاں زاد عجب بات
اور اشیا کا پرستار بھی میں
اور ثروت جو نہیں اس کا طلب گار بھی میں!
تو جو ہنستی رہی اس رات تذبذب پہ مرے
میری دو رنگی پہ پھر سے ہنس دے !
عشق سے کس نے مگر پایا ہے کچھ اپنے سوا؟
ہے ہر عشق سوال ایسا کہ عاشق کے سوا
یہی کافی ہے کہ باطن کی صدا گونج اٹھے !
مرے گوشۂ باطن کی صدا ہی تھی
مرے فن کی ٹھٹھرتی ہوئی صدیوں
تیری آنکھوں کے سمندر کا کنارا ہی تھا
یہ سمندر جو مری ذات کا آئینہ ہے
یہ سمندر جو مرے کوزوں کے بگڑے ہوئے
بنتے ہوئے سیماؤں کا آئینہ ہے