جو ٹھنڈے پتھر کو اپنی گولائی
(وہ ٹھنڈا پتھر جو میرے مانند
دور ریگ و ہوا کی یادوں میں لوٹتا ہے )
جو بہتے پانی کو اپنی دریا دلی کی
کہ آپ اپنا ثبوت اپنا جواب ہوں میں!
زمانے کی جھیل کے دوسرے کنارے
یہ جھیل وہ ہے کہ جس کے اوپر
افق کے متوازی چلنے والوں کو پار لاتی ہیں
جنہیں تمنا، مگر، سماوی خرام کی ہو
انہی کو پاتال زمزموں کی صدا سناتی ہیں
انہیں ڈبوتی ہیں وقت لہریں!
تمام ملاح اس صدا سے سدا ہراساں، سدا گریزاں
کہ جھیل میں اک عمود کا چور چھپ کے بیٹھا ہے
اس کے گیسو افق کی چھت سے لٹک رہے ہیں
میں گنبدوں کے تمام رازوں کو جانتا ہوں
درخت مینار برج زینے مرے ہی ساتھی
میں ہر ہوائی جہاز کا آخری بسیرا
سمندروں پر جہاز رانوں کا میں کنارا
تمہارے جیسے کئی فسانوں کو میں نے ان کے
تمام ملاح اس کی آواز سے گریزاں
افق کی شاہراہ مبتذل پر تمام سہمے ہوئے خراماں
جو پست و بالا کے آستاں پر جمے ہوئے ہیں
عمود کے اس طناب ہی سے اتر رہے ہیں
اسی کو تھامے ہوئے بلندی پہ چڑھ رہے ہیں!
اسی طرح میں بھی ساتھ ان کے اتر گیا ہوں
اور ایسے ساحل پر آ لگا ہوں
جہاں خدا کے نشانِ پا نے پناہ لی ہے
یہی سماوی خرام میرا نصیب نکلا
یہی سماوی خرام جو میری آرزو تھا
وہ راستہ کیوں چنا تھا میں نے
کہ جس پہ خود سے وصال تک کا گماں نہیں ہے ؟
وہ راستہ کیوں چنا تھا میں نے
وہ رک گیا ہے دلوں کے ابہام کے کنارے ؟
وہی کنارا کہ جس کے آگے گماں کا ممکن
میں تجھ کو پانے کی (خود کو پانے کی) آرزو میں نکل پڑا تھا
میں ایسے چہرے کو ڈھونڈتا تھا
میں ایسی تصویر کے تعاقب میں گھومتا تھا
(میں اس سے ڈرتا ہوں جو یہ کہتا
ہے مجھ کو اب کوئی ڈر نہیں ہے )
میں اس تعاقب میں کتنی گلیوں سے ،
کتنے گونگے مجسموں سے ، گزر گیا ہوں
میں اس تعاقب میں کتنے باغوں سے ،
کتنی اندھی شراب راتوں سے ،
کتنی چاہت کے کتنے بپھرے سمندروں سے
میں کتنی ہوش و عمل کی شمعوں سے ،
میں اس تعاقب میں کتنے آغاز کتنے انجام گن چکا ہوں
اب اس تعاقب میں کوئی در ہے
تمام رستے ، تمام بوجھے سوال، بے وزن ہو چکے ہیں
یقیں کو کیسے یقیں سے دہرا رہے ہیں کیسے !
جو سطح دریا پہ ساتھ دریا کے تیرتے ہیں
تمام کندے جو سطح دریا پہ تیرتے ہیں،
نہنگ بننا یہ ان کی تقدیر میں نہیں ہے
(نہنگ کی ابتدا میں ہے اک نہنگ شامل
نہ ان کی تقدیر میں ہے پھر سے درخت بننا
(درخت کی ابتدا میں ہے اک درخت شامل
تمام کندوں کے سامنے بند واپسی کی
وہ سطح دریا پہ جبر دریا سے تیرتے ہیں
اب ان کا انجام گھاٹ ہیں جو
ابھی نہیں جو سفینہ گر کے قیاس میں بھی
ایسے اوراق جن پہ حرف سیہ چھپے گا
کہ جن کے قاری نہیں، نہ ہوں گے
اب ان کا انجام ایسے صورت گروں کے پردے
ابھی نہیں جن کے کوئی چہرے
کہ ان پہ آنسو کے رنگ اتریں،
غریب کندوں کے سامنے بند واپسی کی
بقائے موہوم کے جو رستے کھلے ہیں اب تک
ہے ان کے آگے گماں کا ممکن
گماں کا ممکن جو تو ہے میں ہوں!