چلا آ رہا ہوں سمندروں کے وصال سے
جو سمندروں کے فسوں میں ہیں
وہی ریگ زار کہ جس میں عشق کے آئنے
رہ تار جاں میں بکھر گئے !
ابھی آ رہا ہوں سمندروں کی مہک لیے
وہ تھپک لیے جو سمندروں کی نسیم میں
ہے ہزار رنگ سے خواب ہائے خنک لیے
چلا آ رہا ہوں سمندروں کا نمک لیے
یہ برہنگی عظیم تیری دکھاؤں میں
(جو گدا گری کا بہانہ ہے )
کوئی راہرو ہو تو اس سے راہ کی داستاں
میں سنوں فسانہ سمندروں کا سناؤں میں
(کہ سمندروں کا فسانہ عشق کی گسترش کا فسانہ ہے )
یہ برہنگی جسے دیکھ کر بڑھیں دست و پا نہ کھلے زباں
تو وہ ریگ زار کہ جیسے رہزن پیر ہو
کسی راہرو سے امید رحم و کرم لیے
میں بھرا ہوا ہوں سمندروں کے جلال سے
چلا آ رہا ہوں میں ساحلوں کا حشم لیے
ہے ابھی انہی کی طرف مرا درِ دل کھلا
وہ سرور و سوز صدف ابھی مجھے یاد ہے
ابھی چاٹتی ہے سمندروں کی زباں مجھے
مرے پاؤں چھو کے نکل گئی کوئی موج ساز بکف ابھی
وہ حلاوتیں مرے ہست و بود میں بھر گئیں
وہ جزیرے جن کے افق ہجوم سحر سے دید بہار تھے
وہ پرندے اپنی طلب میں جو سر کار تھے
وہ پرندے جن کی صفیر میں تھیں رسالتیں
ابھی اس صفیر کی جلوتیں مرے خوں میں ہیں
جو سمندروں کے فسوں میں ہیں
چلا آ رہا ہوں سمندروں کے جمال سے