شاید اس رات ہمارے شہدا آ جائیں
جانتے ہو کبھی تنہا نہیں چلتے ہیں شہید؟
میں نے دریا کے کنارے جو پرے دیکھے ہیں
جو چراغوں کی لویں دیکھیں ہیں
وہ لویں بولتی تھیں زندہ زبانوں کی طرح
میں نے سرحد پہ وہ نغمات سنے ہیں کہ جنہیں
کون گائے گا شہیدوں کے سوا؟
میں نے ہونٹوں پہ تبسم کی نئی تیز چمک دیکھی ہے
نور جس کا تھا حلاوت سے شرابور
ابھی سرحد سے میں لوٹا ہوں ابھی،
میں ابھی ہانپ رہا ہوں مجھے دم لینے دو
راز وہ ان کی نگاہوں میں نظر آیا ہے
جو ہمہ گیر تھا نادیدہ زمانوں کی طرح!
سب تمناؤں کے شہروں میں دہک اٹھی ہے
شاید اس رات ہمارے شہدا آ جائیں!
وقت کے پاؤں الجھ جاتے ہیں آواز کی زنجیروں سے
ان کی جھنکار سے خود وقت جھنک اٹھتا ہے
نغمہ مرتا ہے کبھی، نالہ بھی مرتا ہے کبھی؟
سنسناہٹ کبھی جاتی ہے محبت کے بجھے تیروں سے ؟
میں نے دریا کے کنارے انہیں یوں دیکھا ہے
میں نے جس آن میں دیکھا ہے انہیں
شہدا اتنے سبک پا ہیں کہ جب آئیں گے
نہ کسی سوئے پرندے کو خبر تک ہو گی
نہ درختوں سے کسی شاخ کے گرنے کی صدا گونجے گی
پھڑپھڑاہٹ کسی زنبور کی بھی کم ہی سنائی دے گی
ابھی سرحد سے میں لوٹا ہوں ابھی
پار جو گزرے گی اس کا ہمیں غم ہی کیوں ہو؟
پار کیا گزرے گی معلوم نہیں
پریشانی آلام سے روحوں پہ گرانی طاری
ان پہ ہمیشہ کی جفائیں بھاری
بوئے کافور اگر بستے گھروں سے جاری
بے پناہ خوف میں رویائے شکستہ کی فغاں اٹھے گی
بجھتی شمعوں کا دھواں اٹھے گا
پار جو گزرے گی معلوم نہیں