نمرود کی خدائی


یہ قدسیوں کی زمیں
جہاں فلسفی نے دیکھا تھا، اپنے خوابِ سحر گہی میں،
ہوائے تازہ و کشت شاداب و چشمۂ جاں فروز کی آرزو کا پرتو
یہیں مسافر پہنچ کے اب سوچنے لگا ہے :
''وہ خواب کابوس تو نہیں تھا؟
وہ خواب کابوس تو نہیں تھا؟
اے فلسفہ گو،
کہاں وہ رویائے آسمانی؟
کہاں یہ نمرود کی خدائی!
تو جال بنتا رہا ہے ، جن کے شکستہ تاروں سے اپنے موہوم فلسفے کے
ہم اس یقیں سے ' ہم اس عمل سے ' ہم اس محبت سے '
آج مایوس ہو چکے ہیں!
کوئی یہ کس سے کہے کہ آخر
گواہ کس عدل بے بہا کے تھے عہد تاتار کے خرابے ؟
عجم، وہ مرز طلسم و رنگ و خیال و نغمہ
عرب، وہ اقلیم شیر و شہد و شراب و خرما
فقط نواسنج تھے در و بام کے زیاں کے ،
جو ان پہ گزری تھی
اس سے بد تر دنوں کے ہم صید ناتواں ہیں!
کوئی یہ کس سے کہے :
در و بام،
آہن و چوب و سنگ و سیماں کے
حسن پیوند کا فسوں تھے
بکھر گیا وہ فسوں تو کیا غم؟
اور ایسے پیوند سے امیدِ وفا کسے تھی!
شکست مینا و جام برحق،
شکستِ رنگ عذار محبوب بھی گوارا
مگر یہاں تو کھنڈر دلوں کے ،
(یہ نوع انساں کی
کہکشاں سے بلند و برتر طلب کے اجڑے ہوئے مدائن۔)
شکست آہنگ حرف و معنی کے نوحہ گر ہیں!
فہرست