یہ نوشیروان عادل کی داد گاہیں
تصوف و حکمت و ادب کے نگار خانے
یہ کیوں سیہ پوست دشمنوں کے وجود سے
آج پھر ابلتے ہوئے سے ناسور بن رہے ہیں؟''
ہم اس کے مجرم نہیں ہیں جان عجم نہیں ہیں
جس نے ہندوستاں کے ساحل پہ
لا کے رکھی تھی جنس سودا گری
ہم اپنے سیاہ قدموں سے روندتے ہیں!
اسی سے ناچار ہم کو وابستہ کر دیا ہے
ہم اس کی تہذیب کی بلندی کی چھپکلی بن کے رہ گئے ہیں
''کہ ایشیا ہے کوئی عقیم و امیر بیوہ
جو اپنی دولت کی بے پناہی سے مبتلا اک فشار میں ہے
اور اس کا آغوش آرزو مند وا مرے انتظار میں ہے
قدیم خواجہ سراؤں کی اک نژاد کاہل
اجل کی راہوں پہ تیز گامی سے جا رہے ہیں''
مگر راہ و رسمِ منزل سے بے خبر ہیں
اگر کبھی سوچتے ہیں کچھ تو یہی
نجات دلوا سکیں گے مشرق کو
غیر کے بے پناہ بپھرے ہوئے ستم سے
یہ حادثہ ہی کہ جس نے پھینکا ہے
جہاں سے ہر بار جنگ کی بوئے تند اٹھتی ہے
اپنی اداس بے کار زندگی کے
کبھی کبھی بھیڑیوں کے مانند
جستجو میں کسی کے دو ''ساق صندلیں'' کی
ناتواں پتنگوں کی پھڑپھڑاہٹ پہ
ہوش سے بے نیاز ہو کر وہ ٹوٹتے ہیں
پارۂ نان من و سلویٰ کا روپ بھر لے
جس کی منزل پہ شوق کی تشنگی نہیں ہے !
تو ان مناظر کو دیکھتی ہے !
فرنگیوں کی محبت ناروا کی زنجیر میں بندھے ہیں
انہی کے دم سے یہ شہر ابلتا ہوا سا ناسور بن رہا ہے !
مشرق کے اک کنارے سے دوسرے تک
بس ایک ہی عنکبوت کا جال ہے کہ جس میں
ہم ایشیائی اسیر ہو کر تڑپ رہے ہیں
بس ایک ہی دردِ لا دوا میں
اس اشتراک گراں بہا نے بھی