ہمارے اعضا جو آسماں کی طرف دعا کے لیے اٹھے ہیں
(تم آسماں کی طرف نہ دیکھو!)
مقام نازک پہ ضربِ کاری سے جاں بچانے کا ہے وسیلہ
کہ اپنی محرومیوں سے چھپنے کا ایک حیلہ؟
بزرگ و برتر خدا کبھی تو (بہشت برحق)
کہ ہم ہیں اس سرزمیں پہ جیسے وہ حرف تنہا
(مگر وہ ایسا جہاں نہ ہو گا) خموش و گویا
جو آرزوئے وصال معنی میں جی رہا ہو
جو حرف معنی کی یک دلی کو ترس گیا ہو
(کہ سب کو بخشیں بقدر ذوق نگہ تبسم)
ہمیں معری کی روح کا اضطراب دے دو
(جہاں گناہوں کے حوصلے سے ملے تقدس کے دکھ کا مرہم)
کہ اس کی بے نور و تار آنکھیں
اسی جہاں میں فراق جاں کاہ حرف و معنی
بہشت اس کے لیے وہ معصوم سادہ لوحوں کی عافیت تھا
جہاں وہ ننگے بدن پہ جابر کے تازیانوں سے بچ کے
وہ کفش پا تھا کہ جس سے غربت کی ریگ بریاں
کہ صلب آدم کی رحم حوا کی عزلتوں میں
(بہشت صفر عظیم لیکن ہمیں وہ گم گشتہ ہندسے ہیں
بغیر جن کے کوئی مساوات کیا بنے گی
وصال معنی سے حرف کی بات کیا بنے گی؟)
ہم اس زمیں پر ازل سے پیرانہ سر ہیں مانا
اور اپنی ژولیدہ کاریوں کے طفیل دانا
(بہشت میں بھی نشاط یک رنگ ہو تو غم ہے
ہو ایک سا جام شہد سب کے لیے تو سم ہے )
کہ ہم ابھی تک ہیں اس جہاں میں وہ حرف تنہا
(بہشت رکھ لو ہمیں خود اپنا جواب دے دو!)