کوٹ پہ محنت کی سیاہی کے نشاں
نوجواں بیٹے کی گردن کی چمک دیکھتا ہوں
اک رقابت کی سیہ لہر بہت تیز
مرے سینۂ سوزاں سے گزر جاتی ہے
جس طرح طاق پہ رکھے ہوئے گل داں کی
اور گلو الجھے ہوئے تاروں سے بھر جاتا ہے
کیا انہی کانوں کی یادوں میں جہاں
انہی بے آب درختوں کے وہ جنگل
جنہیں پیرانہ سری بار ہوئی جاتی تھی
کوئلے لاکھوں برس دور کے خوابوں میں الجھ جاتے ہیں
ان رنگوں سے آوازوں سے کیا ربط
جو اس غم زدہ گھر کے خس و خاشاک میں ہیں
اس کو اس میز پر بکھری ہوئی
آج بھی اپنے عقیدے پہ بدستور
اپنے آئندہ کے خوابوں میں اسیر
ان کی رہائی کا وسیلہ بن کر
خود سے مہجوری ناگاہ کا حیلہ بن کر
اور وہ لاکھوں برس سوچ میں
آئندہ کے موہوم میں خوابیدہ رہے
میرے بیٹے تجھے کچھ یاد بھی ہے
میں نے بھی شور مچایا تھا کبھی
خاک کے بگڑے ہوئے چہرے کے خلاف
مری جاں بھی پکار اٹھی تھی
میں کبھی ایک انا اور کبھی دو کا سہارا لیتا
اپنی ساتھی سے میں کہہ اٹھتا کہ جاگو اے جان
میرا ڈر مجھ کو نگل جائے گا
میرے کانوں میں مرے کرب کی آواز
تجھے بے کار خداؤں پہ یقیں
آج بھی اپنے ہی الحاد کی کرسی میں
نوجواں بیٹے کے الفاظ پہ چونک اٹھتا ہوں
یہ عجب خواب سنایا ہے مجھے
اپنا یہ خواب کسی اور سے ہرگز نہ کہو
کبھی آہستہ سے دروازہ جو کھلتا ہے تو ہنس دیتا ہوں
پھول یا پریاں بنانے کا کوئی نسخہ
مجھے فرداؤں کے صحرا سے بھی
افسون روایت کی لہک آتی ہے
آگ میں کوئلے بجھنے کی تمنا نہ کرو
ان سے آئندہ کے مٹتے ہوئے آثار
ان گزرتے ہوئے لمحات کی تنہائی میں
کیسا یہ خواب سنایا ہے مجھے تو نے ابھی
ایسے مجذوب کو اک خواب بہت