آ لگی ہے ریت دیواروں کے ساتھ
سرخ اینٹوں کی چھتوں پر رینگتی ہے
نیلی نیلی کھڑکیوں سے جھانکتی ہے
سنہرے تاش کے پتوں سے درزوں
سست برساتیں کہ جن پر دوڑ پڑنا
جن کو دانتوں میں چبا لینا
تو نے وہ ساری نگل ڈالی ہیں رات
تو دیوانی بلی تھی جو اپنی دم کے پیچھے
ریت کی اک عمر ہے اک وقت ہے
خود سے جدا کرتی چلی جاتی ہے ریت
ناگہاں ہم سب پہ چھا جانے کی خاطر
یہ ہماری موت بن کر تازہ کر دیتی ہے
ریت کو مٹھی میں لے کر دیکھتے ہیں
اپنے پوروں سے اسے چھنتے ہوئے
اپنے پاؤں میں پھسلتے دیکھتے ہیں
ہمارے باطنوں کو چیرتی جاتی ہے ریت
پھیلتی جاتی ہے جسم و جاں کے ہر سو
ہم پہ گھیرا ڈالتی جاتی ہے
ریت عارف کی اذیت کا بدل تھی
آنسوؤں کی غم کی پہنائی تھی ریت
ریت وہ دنیا تھی جس پر دشمنوں کی
اس کو اپنا تک کوئی سکتا نہ تھا
پیرانہ سری کی اپنی تنہائی
آنے والی رات کے تودے لگاتی
ناگہاں کی بے نہایت کو اڑا لائی ہے
دل کے سونے پن میں در آئی ہے