گرہ در گرہ ہیں تمنا کے نادیدہ تار
ستاروں سے اترے ہیں کچھ لوگ رات
وہ کہتے ہیں اپنی تمنا کے ژولیدہ تاروں کو سلجھاؤ
سلجھاؤ اپنی تمنا کے ژولیدہ تار
ستاروں کی کرنوں کی مانند سلجھاؤ
مبادا ستاروں سے برسیں وہ تیر
کہ رہ جائے باقی تمنا نہ تار
ستاروں سے اترے ہوئے راہگیر
کہ ہے نور ہی نور جن کا خمیر
تمنا سے واقف نہیں نہ ان پر عیاں
تمنا کے تاروں کی ژولیدگی ہی کا راز
تمنا ہمارے جہاں کی جہان فنا کی متاعِ عزیز
مگر یہ ستاروں سے اترے ہوئے لوگ
سر رشتہ ناگزیر ابد میں اسیر
ہم ان سے یہ کہتے ہیں اے اہل مریخ
جانے وہ کن کن ستاروں سے ہیں
ادب سے خوشامد سے کہتے ہیں اے محترم اہل مریخ
کیا تم نہیں دیکھتے ان تمنا کے ژولیدہ تاروں کے رنگ
مگر ان کو شاید کہ رنگوں سے رغبت نہیں
کہ رنگوں کی ان کو فراست نہیں
ہے رنگوں کے بارے میں ان کا خیال اور
بڑی سادگی سے یہ کہتے ہیں ہم
محترم اہل مریخ دیکھے نہیں
کبھی تم نے ژولیدہ باہوں کے رنگ
محبت میں سر خوش نگاہوں کے رنگ