درد اک اور اٹھا آہ نیا سینے میں

بہادر شاہ ظفر


ہجر کے ہاتھ سے اب خاک پڑے جینے میں
درد اک اور اٹھا آہ نیا سینے میں
خونِ دل پینے سے جو کچھ ہے حلاوت ہم کو
یہ مزا اور کسی کو نہیں مے پینے میں
دل کو کس شکل سے اپنے نہ مصفا رکھوں
جلوہ گر یار کی صورت ہے اس آئینے میں
اشک و لختِ جگر آنکھوں میں نہیں ہیں میرے
ہیں بھرے لال و گہر عشق کے گنجینے میں
شکل آئینہ ظفرؔ سے تو نہ رکھ دل میں خیال
کچھ مزا بھی ہے بھلا جان مری لینے میں
فہرست