لغزش

اختر الایمان


جھلملا کر بجھ گئے پاگلِ امیدوں کے دیے
تو سمجھتی ہے کہ میں ہوں آج تک اندوہگیں
وقت کے ہاتھوں نے آخر مندمل کر ہی دیا
اب مرے معصوم زخموں سے لہو بہتا نہیں
جب حنائی انگلیوں کی جنبشیں آتی ہیں یاد
جذب کر لیتا ہوں آنکھوں کی جنبشیں آتی ہیں یاد
اب مگر ماضی کی ہر شے پر اندھیرا چھا گیا
اور ہی راہوں سے گزرتی جا رہی ہے زندگی
ذہن میں ابھرے ہوئے ہیں چند بے جا سے نقوش
اور ان میں بھی نہیں ہے کوئی ربط باہمی
خواب دیکھا تھا کسی دامن کی چھاؤں میں کبھی
ایک ایسا خواب جس کا مدعا کوئی نہیں
میں اکیلا جا رہا ہوں اور زمیں ہے سنگلاخ
اجنبی وادی میں میرا آشنا کوئی نہیں
راستے کٹتے ہوئے گم ہو گئے ہیں دھند میں
دھند سے آگے خلا ہے راستہ کوئی نہیں
یہ بھیانک خواب کیوں مغلوب کرتے ہیں مجھے
دودھیا راتیں سحر کے جھٹپٹے میں کھو گئیں
اور تیری نرم باہیں مجھ سے اب نا آشنا
اور ہی گردن کے حلقے میں لپٹ کر سو گئیں
مسکرا اٹھتا ہوں اپنی سادگی پر میں کبھی
کس قدر تیزی سے یہ باتیں پرانی ہو گئیں
 
فہرست