نفسِ امارہ کی گردن کو مروڑا چاہیے

حیدر علی آتش


یا علی کہہ کر بتِ پندار توڑا چاہیے
نفسِ امارہ کی گردن کو مروڑا چاہیے
تنگ آ کر جسم کو اے روح چھوڑا چاہیے
طفل طبعوں کے لیے مٹی کا گھوڑا چاہیے
زلف کے سودے میں اپنے سر کو پھوڑا چاہیے
جب بلا کا سامنا ہو منہ نہ موڑا چاہیے
گھورتی ہے تم کو نرگس آنکھ پھوڑا چاہیے
گل بہت ہنستے ہیں کان ان کے مروڑا چاہیے
آج کل ہوتا ہے اپنا عشق پنہاں آشکار
پک چکا ہے خوب اب پھوٹے یہ پھوڑا چاہیے
مانگتا ہوں میں خدا سے اپنے دل سے داغ عشق
بادشاہِ حسن کے سکے کا توڑا چاہیے
ان لبوں کے عشق نے ہے جیسے دیوانہ کیا
بڑ اپنی ہے اک لالوں کا جوڑا چاہیے
دے رہا ہے گیسوئے مشکین سودے کو جگہ
کس کے آگے جا کے اپنے سر کو پھوڑا چاہیے
بادۂِ گلگوں کے شیشہ کا ہوں سائل ساقیا
ساتھ کیفیت کے اڑتا مجھ کو گھوڑا چاہیے
یہ صدا آتی ہے رفتار سمند عمر سے
وہ بھی گھوڑا ہے کوئی جس کو کہ کوڑا چاہیے
قطع مقراض خموشی سے زباں کو کیجیے
قفل دے کر گنج پر مفتاح توڑا چاہیے
اپنے دیوانہ کا دل لے کر یہ کہتا ہے وہ طفل
یہ کھلونا ہے اسی قابل کہ توڑا چاہیے
زلفیں روئے یار پر بے وجہ لہراتی نہیں
کچھ نہ کچھ زہر اگلے یہ کالے کا جوڑا چاہیے
باغباں سے چھپ کے گل چینی جو کی تو کیا کیا
آنکھ بلبلِ کی بچا کر پھول توڑا چاہیے
فصلِ گل میں بیڑیاں کاٹی ہیں میرے پاؤں کی
ہاتھ میں حداد کے سونے کا توڑا چاہیے
باغ عالم میں یہی میری دعا ہے روز و شب
خار خار عشق گل رخسار توڑا چاہیے
عشق کی مشکل پسندی سے ہوا یہ آشکار
خوب صورت کو غرورِ حسن تھوڑا چاہیے
زمزمے سن کر مرے صیاد گل رو نے کہا
ذبح کیجے ایسے بلبل کو نہ چھوڑا چاہیے
پیر ہو آتشؔ کفن کا سامنا ہے عن قریب
توبہ کیجے دامنِ تر کو نچوڑا چاہیے
فہرست