عید ہے اور ہم کو عید نہیں

بیخود بدایونی


حاصل اس مہ لقا کی دید نہیں
عید ہے اور ہم کو عید نہیں
چھیڑ دیکھو کہ خط تو لکھا ہے
میرے خط کی مگر رسید نہیں
جانتے ہوں امیدوار مجھے
ان سے یہ بھی مجھے امید نہیں
یوں ترستے ہیں مے کو گویا ہم
پیر مے خانہ کے مرید نہیں
خون ہو جائیں خاک میں مل جائیں
حضرت دل سے کچھ بعید نہیں
آؤ میرے مزار پر بھی کبھی
کشتۂ ناز کیا شہید نہیں
ہم تو مایوس ہیں مگر بیخودؔ
دل نا فہم ناامید نہیں
فاعِلاتن مفاعِلن فِعْلن
خفیف مسدس مخبون محذوف مقطوع
فہرست