اس نے اتنی کتابیں چاٹ ڈالیں
کہ اس کی عورت کے پیر کاغذ کی طرح ہو گئے
وہ روز کاغذ پہ اپنا چہرہ لکھتا اور گندہ ہوتا
اس کی عورت جو خاموشی کاڑھے بیٹھی تھی
کاغذوں کے بھونکنے پر سارتر کے پاس گئی
تم راںؔ بو اور فرائڈؔ سے بھی مل آئے ہو کیا
سیفوؔ میری سیفوؔ میرابائیؔ کی طرح مت بولو
میں سمجھ گئی اب اس کی آنکھیں
کیٹسؔ کی آنکھیں ہوئی جاتی ہیں
میں جو سوہنی کا گھڑا اٹھائے ہوئے تھی
اپنا نام لیلیٰ بتا چکی تھی
لیلیٰ مجمع کی باتیں میرے سامنے مت دہرایا کرو
تنہائی بھی کوئی چیز ہوتی ہے
شیکسپئیر کے ڈراموں سے چن چن کر اس نے ٹھمکے لگائے
سارتر فرائڈؔ کے کمرے میں چلا گیا
وہ اپنی تھیوری سے گر گر پڑتا
میں سمجھ گئی اس کی کتاب کتنی ہے
اور کل کو مجمع میں بھی ملنا تھا
میں نے بھیڑ کی طرف اشارہ کیا تو بولا
اتنے سارے سارتروں سے مل کر تمہیں کیا کرنا ہے
اگر زیادہ ضد کرتی ہو تو اپنے وارث شاہؔ
ہیر سیال کے کمروں میں چلے چلتے ہیں
میں نے ایک تنقیدی نشست رکھی
میں نے آدھا کمرہ بھی بڑی مشکل سے حاصل کیا تھا
سو پہلے آدھے فرائڈؔ کو بلایا
پھر آدھے راںؔ بو کو بلایا
آدھی آدھی بات پوچھنی شروع کی
سیکنڈ ہینڈ شاعروں سے نجات چاہتا ہے
وہ جہنم سے بھی فرار ہو چکا ہے
وہ خواجہ سراؤں سے زیادہ دیر مقابلہ نہیں کر سکتا
ایک کتا مسلسل بھونکنے کے لیے چھوڑ گیا ہے
بیاترؔچے کی یاد میں بھونک رہا ہے
سارتروں کی تصور کے لحاظ سے
اب اس کا رخ گوئٹے ؔ کے گھر کی طرف ہو گیا ہے
باقی آدھے کمرے میں کیا ہو رہا ہے
لڑکیوں کے نام قافیے کی وجہ سے
سارتر زیادہ نہیں رکھ پا رہا ہے
اس لیے ان کی غزل چھوٹی پڑ رہی ہے
اپنے کمروں سے اکھڑنے کے لیے تیار نہیں
لیکن انہوں نے وعدہ کیا ہے
اور بتائیں گے کہ سوسائٹی کیا ہے
ویسے ہواؤں کا کام ہے چلتے پھرتے رہنا
دور اندیش کی آنکھ کیسی ہے
وہ گھڑے سے پتھر نکال کر گن رہے تھے
اور کہہ رہے تھے میں اس گھڑے کا بانی ہوں
اور چغلخوری کی کتاب کا دیباچہ
زبانوں میں بجھے تیروں سے مقتول زندہ ہو رہے ہیں
سوسائٹی کے چہرے پہ وہ زبان چلتی ہے
کتابوں کی ریاست بندے سے زیادہ ہے
مہارانیوں کے قصے گھڑنے پر
ہر فرد کی مٹھی گرم ہوتی ہے
پہلے یہ بتاؤ جھجھنے کی تاریخِ پیدائش کیا ہے
میں کوئی نقاد ہوں جو تاریخ دہراتا پھروں
میرؔ کی کتاب کا دیباچہ لکھنا ہے
مجھے تو سیفوؔ بھابھی کی معلوم ہو رہی ہے
لیکن تمہارا تصور کیا کہتا
میں دم ہلانے کے سوا کیا کر سکتا ہوں