عزت کے تابوت میں قید کی میخیں ٹھونکی گئی ہیں
گھر سے لے کر فٹ پاتھ تک ہمارا نہیں
عزت ہمارے گزارے کی بات ہے
عزت کے نیزے سے ہمیں داغا جاتا ہے
عزت کی کنی ہماری زبان سے شروع ہوتی ہے
کوئی رات ہمارا نمک چکھ لے
تو ایک زندگی ہمیں بے ذائقہ روٹی کہا جاتا ہے
کہ رنگ ساز ہی پھیکا پڑا ہے
خلا کی ہتھیلی پہ پتنگیں مر رہی ہیں
جائز اولاد کے لیے زمین کھلنڈری ہونی چاہیے
تم ڈر میں بچے جنتی ہو اسی لیے آج تمہاری کوئی نسل نہیں
تم جسم کے ایک بند سے پکاری جاتی ہو
تمہاری حیثیت میں تو چال رکھ دی گئی ہے
چھوٹی مسکراہٹ تمہارے لبوں پہ تراش دی گئی ہے
تمہارے بچے پھیکے کیوں پڑے ہیں
ریپ کی قید کی بٹے ہوئے جسم کی
یا اینٹوں میں چنی ہوئی بیٹیوں کی
بازاروں میں تمہاری بیٹیاں
اپنے لہو سے بھوک گوندھتی ہیں
یہ تمہاری کون سی آنکھیں ہیں
یہ تمہارے گھر کی دیوار کی کون سی چنائی ہے
تم نے میری ہنسی میں تعارف رکھا
اور اپنے بیٹے کا نام سکہ رائجُ الوقت
آج تمہاری بیٹی اپنی بیٹیوں سے کہتی ہے
میں اپنی بیٹی کی زبان داغوں گی
لہو تھوکتی عورت دھات نہیں
ہم سر پہ کفن باندھ کر پیدا ہوئے ہیں