دریا اپنی مٹھی کھول رہا ہے
کچھ پتے اور پتوں کے ساتھ کچھ ہوا اکھڑ گئی ہے
چاہتے ہیں دریا کو مٹھی کا جال لگائیں
آنکھیں منظر تہہ کرتی جا رہی ہیں
سمندر مٹی کو چوکور کر نہیں پا رہے سن
اس میں جلے ہوئے کپڑے پھینک
زینے گلیوں میں دھنسے جا رہے ہیں
جسموں سے آنکھیں باندھ دی گئی ہیں
بہتے ستارے تجھے عکس کر رہے ہیں
جنگل سے لوٹنے والوں کے پاس
کئی جنم بعد بات دہرائی ہے
میری بات میں جال مت لگا میری بات بتا
بوجھل سائے پہ کتنا وزن رکھا گیا تھا
موت کی چادر تمہاری آنکھیں ناپنا چاہتی ہے
کنچے اس چادر کو چھید چھید کر دیں گے
چادر میں پہلے ہی سی کر لائی تھی
یہ چادر تمہیں مٹی سے دور رکھے گی
ایسی حد ایسی حد سے میرا وجود انکار کرتا ہے
تمہارا وجود تو پرندے رٹ چکے
تمہاری زبان کہیں تمہاری محتاج تو نہیں
آدمی انسان ہونے چلا تھا کہ کنواں سوکھ گیا
کیا آدمی نے کنوئیں میں نفرت پھینک دی تھی
وہ صدا گنبد کو توڑتی ہوئی
تھوڑا سا آسمان بھی توڑ لائی تھی
چادر اور آواز کو تہہ کر کے رکھ دو
لوٹنے تک میری آواز دھرتی پہ گونجتی رہے
تم دو آنکھیں رکھنا مگر فاصلے کو بیدار مت کرنا
آنکھوں کی ٹک ٹک سارا جنگل جانتا ہے
اور ہاں زبان کا علم اپنے ساتھ لیتے جاؤ
تم پیڑوں اور چڑیوں کی گفتگو سننا
میں یہ ٹکڑا آسمان کو رنگنے جا رہی ہوں
وعدے چوکھٹ گھڑیاں جوڑ جوڑ کر بنائے گئے ہیں
چاپ کا اقرار دیکھ میرے قدم کی رکھوالی کرتی ہے
تمہاری جھونپڑی باندھے جاتی ہوں
جس وقت اپنا اپنا دم توڑ دیں
میں کوئی زندہ نہیں رہی ہوں گی
دیا تاریکیوں کو چوکنا رکھے گا
اچھا چراغ اور چادر کو باندھ دو
تم حقیقت کی تیسری شکل نہیں دیکھنا چاہتے
یہ راکھ نہیں میرے سفر کی گواہی ہے