کیسے ٹہلتا ہے چاند آسمان پہ
آواز کے علاوہ بھی انسان ہے
آنکھوں کو چھو لینے کی قیمت پہ اداس مت ہو
ہنسی ہماری موت کی شہادت ہے
لحد میں پیدا ہونے والے بچے
پھر پرندے سورج سے پہلے کسی کا ذکر کرتے ہیں
آواز کے علاوہ بھی انسان ہے
کہ میں ایک بے لباس عورت ہوں
اور جتنی چاہوں آنکھیں رکھتی ہوں
ہے کوئی میرا مجسمہ بنانے والا
کاش عورت بھی جنازے کو کاندھا دے سکتی
ہر قدم زنجیر معلوم ہو رہا ہے اور میرا دل تہ کر کے رکھ دیا
گیا ہے شور مجھے لہولہان کر رہا ہے میں
اپنی قید کاٹ رہی ہوں اور اس قید میں کبھی
ہاتھ کاٹ کر پھینک دیتی ہوں کبھی
آواز کاٹ کاٹ کر پھینک رہی ہوں
میرا دل دلدل میں رہنے والا کیڑا ہے اور میں قبر سے
سڑاندی ہی سڑاند سے میری آنکھوں کا
اور میں انسان کی پہلی اور آخری غلطی پر دم ہلائے
میں جب انسان تھی تو چور کی آس تک نہ تھی میں
آنکھوں میں صلیب اور دل میں اپنی لاش
سچائیوں کے زہر سے مری ہوں
لیکن دنیا گورکن کو ڈھونڈنے گئی ہوئی ہے
وہ مجھے آباد کرتا ہے اور آباد کہتا ہے
میں ہری بھری پیاس سے زرخیز ہو جاتی ہوں
اور پھولوں کو مٹی میں دبانے لگتی ہوں
اور سانپ کی بھوک میرا گھر ہے