سنگِ میل پہروں چلتا ہے سارا شگفتہ آسمان کے سینے میں غم چرخا کات رہا ہے سنگِ میل پہروں چلتا ہے اور ساکت ہے رات مجھ سے پہلے جاگ گئی ہے لباس پر پڑے ہوئے دھبے میرے بچوں کے دکھ تھے میرے لہو کو تنہائیاں چاٹ رہی ہیں شہر کی منڈیر سے تنکے چرائے تھے سورج نے دکھ بنا دیے میرے سپنوں کا داغ آنکھیں ہیں میری قبر مجھے چھپ کر دیکھ رہی ہے