راہ پر ان کو لگا لائے تو ہیں
باتوں میں
آزمایا ہے تمہیں ہم نے کئی
باتوں میں
غیر کے سر کی بلائیں جو نہیں لیں ظالم
کیا مرے قتل کو بھی جان نہیں
ہاتھوں میں
ابرِ رحمت ہی برستا نظر آیا زاہد
یا رب اس چاند کے ٹکڑے کو کہاں سے لاؤں
روشنی جس کی ہو ان تاروں بھری
راتوں میں
تمہیں انصاف سے اے حضرتِ ناصح کہہ دو
لطف ان باتوں میں آتا ہے کہ ان
باتوں میں
دوڑ کر دستِ دعا ساتھ دعا کے جاتے
ہائے پیدا نہ ہوئے پاؤں مرے
ہاتھوں میں
جلوۂِ یار سے جب بزم میں غش آیا ہے
تو رقیبوں نے سنبھالا ہے مجھے
ہاتھوں میں
ایسی تقریر سنی تھی نہ کبھی شوخ و شریر
تیری آنکھوں کے بھی فتنے ہیں تری
باتوں میں
ہم سے انکار ہوا غیر سے اقرار ہوا
فیصلہ خوب کیا آپ نے دو
باتوں میں
ہفت افلاک ہیں لیکن نہیں کھلتا یہ حجاب
کون سا دشمن عشاق ہیں ان
ساتوں میں
اور سنتے ابھی رندوں سے جناب واعظ
ہم نے دیکھا انہیں لوگوں کو ترا دم بھرتے
جن کی شہرت تھی یہ ہرگز نہیں ان
باتوں میں
بھیجے دیتا ہے انہیں عشق متاعِ دل و جاں
دل کچھ آگاہ تو ہو شیوۂِ عیاری سے
اس لیے آپ ہم آتے ہیں تری
گھاتوں میں
وصل کیسا وہ کسی طرح بہلتے ہی نہ تھے
وہ گئے دن جو رہے یاد بتوں کی اے داغؔ