شفاف پانیوں پہ کنول کا لباس ہو

غلام محمد قاصر


سب رنگ ناتمام ہوں ہلکا لباس ہو
شفاف پانیوں پہ کنول کا لباس ہو
اشکوں سے بن کے مرثیہ پہنا دیا گیا
اب زندگی کے تن پہ غزل کا لباس ہو
ہر ایک آدمی کو ملے خلعت بشر
ہر ایک جھونپڑی پہ محل کا لباس ہو
سن لے جو آنے والے زمانے کی آہٹیں
کیسے کہے کہ آج بھی کل کا لباس ہو
یا رب کسی صدی کے افق پر ٹھہر نہ جائے
اک ایسی صبح جس کا دھندلکا لباس ہو
اجلا رہے گا صرف محبت کے جسم پر
صدیوں کا پیرہن ہو کہ پل کا لباس ہو
مفعول فاعلات مفاعیل فاعِلن
مضارع مثمن اخرب مکفوف محذوف
فہرست