اس جسم کی خوشبو ہے گلابوں سے زیادہ

فارغ بخاری


نشے میں جو ہے کہنہ شرابوں سے زیادہ
اس جسم کی خوشبو ہے گلابوں سے زیادہ
اک قطرۂ شبنم کو ترستے ہیں گلستاں
یہ فصل تو ممسک ہے سرابوں سے زیادہ
پڑھنا ہے تو انسان کو پڑھنے کا ہنر سیکھ
ہر چہرے پہ لکھا ہے کتابوں سے زیادہ
پہنچا ہوں وہیں پر کہ چلا تھا میں جہاں سے
ہستی کا سفر بھی نہیں خوابوں سے زیادہ
یہ بکھری ہوئی زندگی یکجا نہیں ہوتی
کم ہونے پہ بھی ہم ہیں خرابوں سے زیادہ
فارغؔ کبھی گھٹتی ہی نہیں درد کی دولت
ہوتی ہے ہمیشہ یہ حسابوں سے زیادہ
مفعول مفاعیل مفاعیل فَعُولن
ہزج مثمن اخرب مکفوف محذوف
فہرست