آزاد ہیں پہ ہیں ترے زندانیوں میں ہم

مصحفی غلام ہمدانی


نے شہریوں میں ہیں نہ بیابانیوں میں ہم
آزاد ہیں پہ ہیں ترے زندانیوں میں ہم
جن کا نظیر دستِ قضا سے نہ بن سکا
انصاف ہو تو ہیں انہی لا ثانیوں میں ہم
دریا کی لہروں سے یہ عیاں ہے کہ جوں حباب
رکھتے ہیں دل کو جمع پریشانیوں میں ہم
رشکوک میرے اشک کے لے اس نے یوں کہا
ان موتیوں کو ڈالیں گے چودانیوں میں ہم
اب طائران دشت کے ہیں ہم نشید درد
کرتے تھے زمزمے کبھی بستانیوں میں ہم
اے تیغ ناز تو نے یہ کیسا ستم کیا
بے ذبح رہ گئے ترے قربانیوں میں ہم
جس جا پڑے ہیں کشتے ترے ان کے جو نسیم
بوسے ہی دیتے پھرتے ہیں پیشانیوں میں ہم
سو عیدیں آئیں اور ہوا ہم کو حکم قتل
کیا ناقبول ہیں ترے زندانیوں میں ہم
اے شہسوار حسن عناں لے کہ پس گئے
تیرے سمند ناز کی جولانیوں میں ہم
مدرک ہیں جز و کل کے پہ رہتے ہیں رات دن
اس کار گاہ صنع کی حیرانیوں میں ہم
کشتی شکست خوردۂِ دریائے عشق ہیں
جاتے ہیں ترتے ڈوبتے طوفانیوں میں ہم
محتاج مرگ کاہے کو پھر ہوویں مصحفیؔ
جیتے ہی جی جو بیٹھے ہوں روحانیوں میں ہم
مفعول فاعلات مفاعیل فاعِلن
مضارع مثمن اخرب مکفوف محذوف
فہرست