شورشِ بربط و نے

فیض احمد فیض


پہلی آواز
اب سعی کا امکاں اور نہیں پرواز کا مضموں ہو بھی چکا
تاروں پہ کمندیں پھینک چکے ، مہتاب پہ شب خوں ہو بھی چکا
اب اور کسی فردا کے لیے ان آنکھوں سے کیا پیماں کیجے
کس خواب کے جھوٹے افسوں سے تسکینِ دلِ ناداں کیجے
شیرینیء لب، خوشبوئے دہن، اب شوق کا عنواں کوئی نہیں
شادابیء دل، تفریحِ نظر، اب زیست کا درماں کوئی نہیں
جینے کے فسانے رہنے دو، اب ان میں الجھ کر کیا لیں گے
اک موت کا دھندا باقی ہے ، جب چاہیں گے نپٹالیں گے
یہ تیرا کفن، وہ میرا کفن، یہ میری لحد، وہ تیری ہے
دوسری آواز
ہستی کی متاعِ بے پایاں، جاگیر تری ہے نہ میری ہے
اس بزم میں اپنی مشعلِ دل، بسمل ہے تو کیا، رخشاں ہے تو کیا
یہ بزم چراغاں رہتی ہے ، اک طاق اگر ویراں ہے تو کیا
افسردہ ہیں گرِ ایام ترے ، بدلا نہیں مسلکِ شام و سحر
ٹھہرے نہیں موسمِ گل کے قدم، قائم ہے جمالِ شمس و قمر
آباد ہے وادیء کاکل و لب، شاداب و حسیں گلگشتِ نظر
مقسوم ہے لذت دردِ جگر، موجود ہے نعمت دیدہِ تر
اس دیدہء تر کا شکر کرو، اس ذوقِ نظر کا شکر کرو
اس شام و سحر کا شکر کرو، اس شمس و قمر کا شکر کرو
پہلی آواز
گر ہے یہی مسلکِ شمس و قمر ان شمس و قمر کا کیا ہو گا
رعنائیِ شب کا کیا ہو گا، اندازِ سحر کا کیا ہو گا
جب خونِ جگر برفاب بنا، جب آنکھیں آہن پوش ہوئیں
اس دیدہء تر کا کیا ہو گا، اس ذوقِ نظر کا کیا ہو گا
جب شعر کے خیمے راکھ ہوئے ، نغموں کی طنابیں ٹوٹ گئیں
یہ ساز کہاں سر پھوڑیں گے ، اس کلکِ گہر کا کیا ہو گا
جب کنجِ قفس مسکن ٹھہرا، اور جیب و گریباں طوق و رسن
آئے کہ نہ آئے موسمِ گل، اس دردِ جگر کا کیا ہو گا
دوسری آواز
یہ ہاتھ سلامت ہیں جب تک، اس خوں میں حرارت ہے جب تک
اس دل میں صداقت ہے جب تک، اس نطق میں طاقت ہے جب تک
ان طوق و سلاسل کو ہم تم، سکھلائیں گے شورشِ بربط و نے
وہ شورش جس کے آگے زبوں ہنگامہء طبلِ قیصر و کے
آزاد ہیں اپنے فکر و عمل بھرپور خزینہ ہمت کا
اک عمر ہے اپنی ہر ساعت، امروز ہے اپنا ہر فردا
یہ شام و سحر یہ شمس و قمر، یہ اختر و کوکب اپنے ہیں
یہ لوح و قلم، یہ طبل و علم، یہ مال و حشم سب اپنے ہیں
 
فہرست