ایک ایسی دنیا میں قدم رکھیں جہاں معروف پاکستانی اردو ناول نگار رفاقت حیات بے باکی سے مضافاتی زندگی اور محبت اور سماجی پابندیوں کی پیچیدگیوں کو بے نقاب کرتے ہیں۔
الفاظ کی تخلیق وترتیب شاعر اور ادیب کا پیشہ ہے ۔لیکن زندگی میں بعض مواقع ایسے بھی آتے ہیں جب قدرت کلام جواب دے جاتی ہے ۔ آج عجزِ بیان کا ایسا ہی مرحلہ مجھے درپیش ہے ۔ایسے کوئی الفاظ میرے ذہن میں نہیں آ رہے ، جن میں اپنی عزت افزائی کے لیے لینن پرائز کمیٹی، سوویٹ یونین کے مختلف اداروں، دوستوں اور سب خواتین اور حضرات کا شکریہ خاطر خواہ طور سے ادا کر سکوں۔لینن امن انعام کی عظمت تو اسی ایک بات سے واضح ہے کہ اس سے لینن کا محترم نام اور مقدس لفظ وابستہ ہے ۔لینن جو دور حاضر میں انسانی حریت کا سب سے بزرگ علم بردار ہے اور امن جو انسانی زندگی اور اس زندگی کے حسن وخوبی کی شرطِ اول ہے ۔مجھے اپنی تحریر وعمل میں ایسا کوئی کام نظر نہیں آتا جس اس عظیم اعزاز کے شایان شان ہو۔لیکن اس عزت بخشی کی ایک وجہ ضرور ذہن میں آتی ہے اور وہ یہ ہے کہ جس تمنا اور آدرش کے ساتھ مجھے اور میرے ساتھیوں کو وابستگی رہی ہے یعنی امن اور آزادی کی تمنا وہ بجائے خود اتنی عظیم ہے کہ اس واسطے سے ان کے حقیر اور ادنیٰ کارکن بھی عزت اور اکرام کے مستحق ٹھہرتے ہیں۔
یوں تو ذہنی طور سے مجنون اور جرائم پیشہ لوگوں کے علاوہ سبھی مانتے ہیں کہ امن اور آزادی بہت حسین اور تابناک چیز ہے اور سبھی تصور کر سکتے ہیں کہ امن گندم کے کھیت ہیں اور سفیدے کے درخت، دلہن کا آنچل ہے اور بچوں کے ہنستے ہوئے ہاتھ، شاعر کا قلم ہے اور مصور کاموئے قلم اور آزادی ان سب صفات کی ضامن اور غلامی ان سب خوبیوں کی قاتل ہے جو انسان اور حیوان میں تمیز کرتی ہے ۔یعنی شعور اور ذہانت، انصاف اور صداقت، وقار اور شجاعت، نیکی اور رواداریاس لیے بظاہر امن اور آزادی اور کے حصول اور تکمیل کے متعلق ہوشمند انسانوں میں اختلاف کی گنجائش نہ ہونا چاہیے ۔لیکن بد قسمتی سے یوں نہیں ہے کہ انسانیت کی ابتدا سے اب تک ہر عہداور ہر دور میں متضاد عوامل اور قوتیں برسرعمل اور برسرپیکار رہی ہیں۔یہ قوتیں ہیں، تخریب وتعمیر، ترقی اور زوال، روشنی اور تیرگی، انصا ف دوستی کی قوتیں۔یہی صورت آج بھی ہے اور اسی نوعیت کی کشمکش آج بھی جاری ہے ۔لیکن ساتھ ہی ساتھ آج کل انسانی مسائل اور گزشتہ دور کی انسانی الجھنوں میں کئی نوعیتوں سے بھی فرق ہے ۔دور حاضر میں جنگ سے دوقبیلوں کا باہمی خون خرابہ مراد نہیں ہے ۔نہ آج کل امن سے خون خرابے کا خاتمہ مراد ہے ۔آج کل جنگ اور امن کے معنی ہیں امنِ آدم کی بقااور فنا۔بقااور فنا ان دو الفاظ پر انسانی تاریخ کے خاتمے یا تسلسل کا دارومدار ہے ۔انہیں پرانسانوں کی سرزمین کی آبادی اور بربادی کا انحصار ہے ۔یہ پہلا فرق ہے ۔دوسرا فرق یہ ہے کہ اب سے پہلے انسانوں کو فطرت کے ذخائر پر اتنی دسترس اور پیداوار کے ذرائع پر اتنی قدرت نہ تھی کہ ہر گروہ اور برادری کی ضرورتیں پوری طرح تسکین پاسکتیں۔اس لیے آپس میں چھین جھپٹ اور لوٹ مار کا کچھ نہ کچھ جواز بھی موجود ہے ۔لیکن اب یہ صورتِ حال نہیں ہے ۔انسانی عقل، سائنس اور صنعت کی بدولت اس منزل پر پہنچ چکی ہے کہ جس میں سب تن بخوبی پل سکتے ہیں اور سبھی جھولیاں بھرسکتی ہیں۔بشرطیکہ قدرت کے یہ بے بہا ذخائر پیداوار کے یہ بے اندازہ خرمن، بعض اجارہ داروں اور مخصوص طبقوں کی تسکینِ ہوس کے لیے نہیں، بلکہ جملہ انسانوں کی بہبود کے لیے کام میں لائے جائیں۔اور عقل اور سائنس اور صنعت کی کل ایجادیں اور صلاحتیں تخریب کے بجائے تعمیری منصوبوں میں صرف ہوں۔لیکن یہ جبھی ممکن ہے کہ انسانی معاشرے میں ان مقاصد سے مطابقت پیدا ہو اور انسانی معاشرے کے ڈھانچے کی بنائیں ہوس، استحصال اور اجارہ داری کے بجائے انصاف برابری، آزادی اور اجتماعی خوش حالی میں اٹھائیں جائیں۔اب یہ ذہنی اور خیالی بات نہیں، عملی کام ہے ۔اس عمل میں امن کی جدوجہد اور آزادی کی حدیں آپس میں مل جاتی ہیں۔اس لیے کہ امن کے دوست اور دشمن اور آزادی کے دوست اور دشمن ایک ہی قبیلے کے لوگ، ایک ہی نوع کی قوتیں ہیں۔ایک طرف وہ سامراجی قوتیں ہیں جن کے مفاد، جن کے اجارے جبر اور حسد کے بغیر قائم نہیں رہ سکتے اور جنہیں ان اجاروں کے تحفظ کے لیے پوری انسانیت کی بھینٹ بھی قبول ہے ۔دوسری طرف وہ طاقتیں ہیں جنہیں بنکوں اور کمپنیوں کی نسبت انسانوں کی جان زیادہ عزیز ہے ۔جنہیں دوسروں پر حکم چلانے کے بجائے آپس میں ہاتھ بٹانے اور ساتھ مل کر کام کرنے میں زیادہ لطف آتا ہے ۔سیاست واخلاق، ادب اور فن، روزمرہ زندگی، غرض کئی محاذوں پر کئی صورتوں میں تعمیر اور تخریب انسان دوستی اور انسان دشمنی کی یہ چپقلش جاری ہے ۔
آزادی پسند اور امن پسند لوگوں کے لیے ان میں سے ہر محاذ اور ہرصورت پر توجہ دینا ضروری ہے ۔مثال کے طور پر سامراجی اور غیر سامراجی قوتوں کی لازمی کشمکش کے علاوہ بد قسمتی سے بعض ایسے ممالک میں بھی شدید اختلاف موجود ہیں، جنہیں حال ہی میں آزادی ملی۔ایسے اختلافات ہمارے ملک پاکستان اور ہمارے سب سے قریبی ہمسایہ ہندوستان میں موجود ہیں۔بعض عرب ہمساہہ ممالک میں اور بعض افریقی حکومتوں میں موجود ہیں۔ظاہر ہے کہ ان کے اختلافات سے وہی طاقتیں فائدہ اٹھاسکتی ہیں جو امنِ عالم اور انسانی برادری کی دوستی اور یگانگت کو پسند نہیں کرتیں۔اسلئے صلح پسنداور امن دوست صفوں میں ان اختلافات کے منصفانہ حل پر غور وفکر اور اس حل میں امداددینا بھی لازم ہے ۔
اب سے کچھ دن پہلے جب سوویت فضاؤں کا تازہ کارنامہ ہر طرف دنیا میں گونج رہا تھا تو مجھے بار بارخیال آتا رہا کہ آج کل جب ہم ستاروں کی دنیا میں بیٹھ کر اپنی ہی دنیا کا نظارہ کر سکتے ہیں توچھوٹی چھوٹی کمینگیاں، خود غرضیاں، یہ زمین کے چند ٹکڑوں کو بانٹنے کو کوششیں اور انسانوں کی چند ٹولیوں پر اپنا سکہ چلانے کی خواہش کیسی بعیدازعقل باتیں ہیں۔اب جب کہ ساری کائنات کے راستے ہم پرکشادہ ہو گئے ہیں۔ساری دنیاکے خزینے انسانی بس میں آ سکتے ہیں، توکیاانسانوں میں ذی شعور، منصف مزاج اور دیانت دارلوگوں کی اتنی تعداد موجود نہیں ہے جو سب کو منواس کے کہ یہ جنگی اڈے سمیٹ لو۔یہ بم اور راکٹ، توپیں بندوقیں سمندر میں غرق کر دو اور ایک دوسرے پر قبضہ جمانے کی بجائے سب مل کر تسخیرِ کائنات کو چلو۔جہاں جگہ کی کوئی تنگی نہیں ہے ، جہاں کس کو کسی سے الجھنے کی ضرورت نہیں ہے ، جہاں لا محدود فضائیں ہیں اور ان گنت دنائیں۔مجھے یقین ہے کہ سب رکاوٹوں اور مشکلوں کے باوجود ہم لوگ اپنی انسانی برادری سے یہ بات منواکررہیں گے ۔
مجھے یقین ہے کہ انسانیت جس نے اپنے دشمنوں سے آج تک کبھی ہار نہیں کھائی اب بھی فتح یاب ہو کررہے گی۔اور آخرکار جنگ ونفرت اور ظلم کدورت کے بجائے ہمارے باہمی زندگی کی بناوہی ٹھہرے گی جس کی تلقین اب سے بہت پہلے فارسی شاعر حافظ نے کی تھی