دیباچہ فیض از فیض


اپنے بارے میں باتیں کرنے سے مجھے سخت وحشت ہوتی ہے ۔اس لیے کہ سب لوگوں کا مرغوب مشغلہ یہی ہے ۔اس انگریزی لفظ کے معذرت چاہتا ہوں لیکن اب تو ہمارے ہاں اس کے مشتقات بوریت وغیرہ بھی استعمال میں آنے لگے ہیں۔اس لیے اب اسے اردو میں روزمرہ میں شامل سمجھنا چاہیے ۔تو میں یہ کہہ رہا تھا کہ مجھے اپنے بارے میں قیل وقال بری لگتی ہے ۔بلکہ میں تو شعر میں بھی حتیٰ الامکان واحد متکلم کا صیغہ استعمال نہیں کرتا، اور ’’میں ‘‘کے بجائے ہمیشہ’’ہم‘‘لکھتاآیا ہوں۔چناں چہ جب ادبی ساغران حضرات مجھ سے یہ پوچھنے بیٹھتے ہیں کہ تم شعرکیوں کہتے ہو تو بات کو ٹالنے کے لیے جو دل میں آئے کہہ دیتاہوں۔مثلاً یہ کہ بھئی میں جیسے بھی کہتا ہوں جس لیے بھی کہتا ہوں تم شعر میں خود ڈھونڈواور میرا سر کھانے کی کیاضرورت ہے ۔لیکن ان میں ڈھیٹ قسم کے لوگ جب بھی نہیں مانتے ۔چناں چہ آج کی گفتگوکی سب ذمہ داری ان حضرات کے سر ہے مجھ پر نہیں ہے ۔
شعر گوئی کا واحدعذرِ گناہ تو مجھے نہیں معلوم۔اس میں بچپن کی فضائے گرد و پیش میں شعر کا چرچا دوست احباب کی ترغیب اور دل کی لگی سبھی کچھ شامل ہے ۔یہ نقشِ فریادی کے پہلے حصے کی بات ہے جس میں ۹۲۔۸۲ء سے ۵۳ء تک کی تحریریں شامل ہیں، جو ہماری طالب العلمی کے دن تھے ۔یوں تو ان سب اشعارکاقریب قریب ایک ہی ذہنی اور جذباتی واردات سے تعلق ہے اور اس واردات کا ظاہری محرک تو وہی ایک حادثہ ہے جو اس عمر میں نوجوان دلوں پر گزرجایا کرتا ہے ۔لیکن اب جو دیکھتا ہوں تویہ دور بھی ایک دور نہیں تھا بلکہ اس کے بھی دو الگ الگ حصے تھے ۔جن کی داخلی اور خارجی کیفیت کافی مختلف تھی۔وہ یوں ہے کہ۰۲ء سے ۰۳ء تک زمانہ ہمارے ہاں معاشی اور سماجی طورسے کچھ عجب طرح کی بے فکری، آسودگی اور ولولہ انگیزی کا زمانہ تھا، جس میں اہم قومی اور سیاسی تحریکوں کے ساتھ ساتھ نثر ونظم میں بیشتر سنجیدہ فکرومشاہدہ کے بجائے کچھ رنگ رلیاں منانے کا سا اندازتھا۔شعر میں اولاً حسرت موہانی اور ان کے بعد جوش، حفیظ جالندھری اور اختر شیرانی کی ریاست قائم تھی، افسانے میں یلدرم اور تنقید میں حسن برائے حسن اور ادب برائے ادب کا چرچا تھا۔ نقشِ فریادی کی ابتدائی نظمیں، ’’خدا وہ وقت نہ لائے کہ سوگوارہو تو‘‘ مری جاں اب بھی اپنا حسن واپس پھیر دے مجھ کو‘‘ تہ نجوم کہیں چاندنی کے دامن میں‘‘وغیرہ وغیرہ اسی ماحول کے زیراثر مرتب ہوئیں اور اس فضا میں ابتدائے عشق کا تحیر بھی شامل تھا۔لیکن ہم لوگ اس دور کی ایک جھلک بھی ٹھیک سے نہ دیکھ پائے تھے کہ صحبتِ یار آخرشد۔پھر دیس پرعالمی کساد بازاری کے سائے ڈھلنے شروع ہوئے ۔کالج کے بڑے بڑے بان کے تیس مارخاں تلاشِ معاش میں گلیوں کی خاک پھانکنے لگے ۔یہ وہ دن تھے جب یکایک بچوں کی ہنسی بجھ گئی‘اجڑے ہوئے کسان کھیت کھلیان چھوڑ کر شہروں میں مزدوری کرنے لگے اور اچھی خاصی شریف بہو بیٹیاں بازار میں آ بیٹھیں۔گھر کے باہر یہ حال تھااور گھر کے اندر مرگ سوزِ محبت کا کہرام مچاتھا۔یکایک یوں محسوس ہونے لگا کہ دل و دماغ پر سبھی راستے بندہو گئے ہیں اور اب یہاں کوئی نہیں آئے گا۔اس کیفیت کا اختتام جو نقشِ فریادی کے پہلے حصے کی آخری نظموں کی کیفیت ہے ایک نسبتا غیر معروف نظم پر ہوتا ہے ، جسے میں نے یاس کا نام دیا تھا۔وہ یوں ہے :
یاس
بربطِ دل کے تار ٹوٹ گئے
ہیں زمیں بوس راحتوں کے محل
مٹ گئے قصہ ہائے فکر وعمل
برم ہستی کے جام پھوٹ گئے
چھن گیا کیف کوثر و تسنیم
زحمتِ گریہ و بکا بے سود
شکوہ بختِ نارسا بے سود
ہو چکا ختم رحمتوں کا نزول
بند ہے مدتوں سے بابِ قبول
بے نیازِ دعا ہے رب کریم
بجھ گئی شمعِ آرزوئے جمیل
یاد باقی ہے بے کسی کی دلیل
انتظارِ فضول رہنے دے
رازِ الفت نباہنے والے
بارِ غم سے کراہنے والے
کاوش بے حصول رہنے دے
34ء میں ہم لوگ کالج سے فارغ ہوئے اور 35ء میں میں نے ایم اے او کالج امرتسر میں ملازمت کر لی۔یہاں سے میری اور میرے بہت سے ہمعصرلکھنے والوں کی ذہنی اور جذباتی زندگی کا نیا دور شروع ہوتا ہے ۔اس دوران کالج میں اپنے رفقاء صاحب زادہ محمود الظفر مرحوم اور ان کی بیگم رشیدہ جہاں سے ملاقات ہوئی۔پھر ترقی پسند تحریک کی داغ بیل پڑی، مزدور تحریک کا سلسلہ شروع ہوا اور یوں لگا کہ جیسے گلشن میں ایک نہیں کئی دبستان کھل گئے ہیں۔اس دبستان میں سب سے پہلا سبق جو ہم نے سیکھا تھا کہ اپنی ذات باقی دنیا سے الگ کرکے سوچنااول تو ممکن ہی نہیں، اس لیے کہ اس میں بہر حال گرد و پیش کے سبھی تجربات شامل ہوتے ہیں اور اگر ایسا ممکن ہوبھی تو انتہائی غیر سودمند فعل ہے کہ ایک انسانی فرد کی ذات اپنی سب محبتوں اور کدورتوں مسرتوں اور رنجشوں کے باوجود بہت ہی چھوٹی سی بہت محدود اور حقیر شے ہے ۔اس کی وسعت اور پہنائی کا پیمانہ تو باقی عالم موجودات سے اس کے ذہنی اور جذباتی رشتے ہیں، خاص طور پر انسانی برادری کے مشترکہ دکھ درد کے رشتے ۔چناں چہ غمِ جاناں اور غمِ دوراں تو ایک ہی تجربے کے دو پہلو ہیں۔اسی نئے احساس کی ابتداء نقشِ فریادی کے دوسرے حصے کی پہلی نظم سے ہوتی ہے ۔اس نظم کا عنوان ہے ’’مجھ سے پہلی سی محبت مری محبوب نہ مانگ‘‘
اور اگر آپ خاتون ہیں تو’’مرے محبوب نہ مانگ‘‘
’’مجھ سے پہلی سی محبت مری محبوب نہ مانگ
میں نے سمجھاتھا کہ تو ہے درخشاں ہے حیات
تیرا غم ہے تو غمِ دہر کا جھگڑا کیا ہے
تیری صورت سے ہے عالم میں بہاروں کو ثبات
تیری آنکھوں کے سوا دنیا میں رکھا کیا ہے ؟
تومل جائے تو تقدیر نگوں ہو جائے
یوں نہ تھا، میں نے فقط چاہاتھا یوں ہو جائے
اور بھی دکھ ہیں زمانے میں محبت سے سوا
راحتیں اور بھی وصل کی راحت کے سوا
ان گنت صدیوں کے تاریک بہیمانہ طلسم
ریشم و اطلس و کمخاب میں بنوائے ہوئے
جا بجا بکتے ہوئے کوچہ و بازار میں جسم
خاک میں لتھڑے ہوئے خون میں نہائے ہوئے
جسم نکلے ہوئے امراض کے تنوروں سے
پیپ بہتی ہوئی گلتے ہوئے ناسوروں سے
لوٹ جاتی ہے ادھر کو بھی نظرکیا کیجیے
اب بھی دلکش ہے ترا حسن، مگرکیا کیجیے
اور بھی دکھ ہیں زمانے میں محبت کے سوا
راحتیں اور بھی ہیں وصل کی راحت کے سوا
مجھ سے پہلی سی محبت مری محبوب نہ مانگ
اس کے بعد تیر ہ چودہ برس’’کیوں نہ جہاں کا غم اپنا لیں‘‘میں گزرے اور پھر فوج، صحافت ٹریڈیونین وغیرہ میں گزارنے کے بعد ہم چار برس کے لیے جیل خانے چلے گئے ۔نقشِ فریادی کے بعد کی دو کتابیں ’’دستِ صبا‘‘ اور ’’زنداں نامہ‘‘ اسی جیل خانے کی یادگار ہیں۔بنیادی طور پر تویہ تحریریں انہیں ذہنی محسوسات اور معمولات سے منسلک ہیں جن کا سلسلہ مجھ سے پہلی سی محبت، سے شروع ہوا تھا لیکن جیل خانہ عاشقی کی طرح خود ایک بنیادی تجربہ ہے ، جس میں فکرونظر کا ایک آدھ نیا دریچہ خودبخود کھل جاتا ہے ۔چناں چہ اول تویہ ہے کہ ابتدائے شباب کی طرح تمام حسیات یعنی(Sensations)پھر تیز ہو جاتی ہیں اور صبح کی پو، شام کے دھندلکے ، آسمان کی نیلاہٹ، ہوا کے گزار کے بارے میں وہی پہلا سا تحیر لوٹ آتا ہے ۔دوسرے یوں ہوتا ہے کہ باہر کی دنیا کا وقت اور فاصلے دونوں باطل ہو جاتے ہیں۔نزدیک کی چیزیں بھی بہت دور ہو جاتی ہیں اور دور کی نزدیک اور فرداودی کا تفرقہ کچھ اس طور سے مت جاتا ہے کہ کبھی ایک لمحہ قیامت معلوم ہوتا ہے اور کبھی ایک صدی کل کی بات۔تیسری بات یہ ہے کہ فراغتِ ہجراں میں فکرومطالعہ کے ساتھ عروسِ سخن کے ظاہری بناؤ سنگھاؤ پر توجہ دینے کی زیادہ مہلت ملتی ہے ۔جیل خانے کے بھی دو دور تھے ۔ایک حیدرآباد جیل کا جو اس تجربے کے انکشاف کے تحیر کا زمانہ تھا، ایک منٹگمری جیل کا جو اس تجربے سے اکتاہٹ اور تھکن کا زمانہ تھا۔ان دو کیفیتوں کی نمائندہ یہ دو نظمیں ہیں، پہلی’’دستِ صبا‘‘ میں ہے دوسری’’زندان نامہ‘‘میں ہے ۔
زندان نامہ کی ایک شام
شام کے پیچ و خم ستاروں سے
زینہ زینہ اتر رہی ہے رات
یوں صبا پاس سے گزرتی ہے
جیسے کہہ دی کسی نے پیار کی بات
صحنِ زنداں کے بے وطن اشجار
سرنگوں، محو ہیں بنانے میں
دامنِ آسماں پہ نقش و نگار
شانہ بام پر دمکتا ہے
مہرباں چاندنی کا دستِ جمیل
خاک میں گھل گئی ہے آبِ نجوم
نور میں گھل گئی ہے عرش کا نیل
سبز گوشوں میں نیلگوں سائے
لہلہاتے ہیں جس طرح دل میں
موج دردِ فراقِ یار آئے
دل سے پیہم خیال کہتا ہے
اتنی شیریں ہے زندگی اس پل
ظلم کا زہر گھولنے والے
کامراں ہو سکیں گے آج نہ کل
جلوہ گاہِ وصال کی شمعیں
وہ بجھا بھی چکے اگر تو کیا
چاند کو گل کریں تو ہم جانیں
’’اے روشنیوں کے شہر‘‘
سبزہ سبزہ سوکھ رہی ہے پھیکی زرد دوپہر
دیواروں کو چاٹ رہا ہے تنہائی کا زہر
دور افق تک گھٹتی، بڑھتی، اٹھتی، گرتی رہتی ہے
کہر کی صورت بے رونق دردوں کی گدلی لہر
بستا ہے اس کہر کے پیچھے روشنیوں کا شہر
اے روشنیوں کے شہر
اے روشنیوں کے شہر
کون کہے کس سمت ہے تیری روشنیوں کی راہ
ہر جانب بے نورکھڑی ہے ہجر کی شہر پناہ
تھک کر ہر سو بیٹھ رہی ہے شوق کی ماند سپاہ
آج مرا دل فکر میں ہے
اے روشنیوں کے شہر
شبخوں سے منہ پھیر نہ جائے ارمانوں کی رو
خیر ہو تیری لیلاؤں کی، ان سب سے کہہ دو
آج کی شب جب دیے جلائیں اونچی رکھیں لو
زنداں نامے کے بعد کچھ ذہنی افراتفری کا زمانہ ہے جس میں اپنا اخباری پیشہ چھٹا، ایک بار جیل گئے ۔مارشل لا کا دور آیا، اور ذہنی گرد و پیش کی فضا میں پھر سے کچھ انسداد راہ اور کچھ نئی راہوں کی طلب کا احساس پیدا ہوا۔اس سکوت اور انتظار کی آئینہ دار ایک نظم ہے ’’شام‘‘اور ایک نامکمل غزل کے چند اشعار:
کب ٹھہرے گا درد اے دل کب رات بسر ہو گی!
فیض
فہرست